کیجریوال ہی سے سیکھ لیں

July 05, 2022

بھارتی صوبے ہریانہ میں 16 اگست 1968ء کو پیدا ہونے والے 54 سالہ اروند کیجریوال پہلے بیوروکریٹ بنے پھر نظام بدلنے کی خواہش میں سیاست میں آگئے۔ انہوں نے عام آدمی پارٹی بنائی۔

دہلی سے سیاست شروع کی۔ وہ بہت تیزی سے آگے بڑھے، دسمبر 2013ء میں وزیر اعلیٰ بن گئے مگر پھر 49 دنوں کے بعد استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ اسمبلی سے کرپشن کے خلاف بل منظور نہیں کروا سکے تھے۔

انہوں نے اگلا الیکشن لڑا تو دہلی کے لوگوں نے اکثریت دی، وہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے، پھر انہوں نے وعدوں پر عملدرآمد شروع کیا۔

دلی میں لوڈشیڈنگ تھی، بجلی مہنگی تھی، سرکاری اسکولوں اور ہسپتالوں کی حالت بری تھی، سڑکوں کی حالت بھی بہت خراب تھی، دلی میں صرف پچاس فیصد پانی کی سپلائی کیلئے پائپ لائن تھی، کیجریوال نے محنت کی۔

اب دلی میں لوڈشیڈنگ نہیں ہے، بجلی فری ہے، سرکاری اسکولوں میں تعلیم فری ہے، دلی کے ہسپتالوں میں علاج مفت ہوتا ہے، کیجریوال نے دلی میں محلہ کلینک متعارف کروایا۔ پورے بھارت میں دلی واحد ریاست ہے جہاں مالیاتی خسارہ نہیں، سات سال میں دلی حکومت کا بجٹ 30 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 75 ہزار کروڑ ہوگیا ہے اس دوران دلی کے جی ڈی پی میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اروندکیجریوال اب تیسری مرتبہ دلی کے وزیر اعلیٰ بن چکے ہیں، آج دلی کے دو کروڑ شہریوں کوبنیادی سہولیات مفت حاصل ہیں۔ دلی کی سڑکیں شاندار ہیں، انہوں نے دلی کی عورتوں کے لئے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رکھی ہے۔

کیجریوال جدید ٹیکنالوجی کے قائل ہیں۔ انہوں نے مختلف ایپس بنا رکھی ہیں۔ آپ ہر وقت ایپ کے ذریعے اسکول میں گئے ہوئے بچے کو گھر سے چیک کر سکتے ہیں۔

دلی میں لوگوں کی حفاظت کے لئے اتنے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیئے گئے ہیں کہ دلی، نیویارک، لندن اورشنگھائی سےاس معاملے میں آگے نکل گیا ہے۔ اروند کیجریوال دلی کے شہریوں کو کرپشن سے بھی بچا رہے ہیں۔

انہوں نے دلی میں یہ طریقہ شروع کر رکھا ہے کہ دلی کا کوئی بھی شہری جس نے پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈومیسائل یا پھر کوئی لائسنس بنوانا ہو وہ ایپ یا بذریعہ فون بتائے گا کہ میں فلاں وقت گھر پر ہوں گا اور مجھے ڈومیسائل یا لائسنس بنوانا ہے۔ شہری نے بتادیا۔

اب شہری کا کام ختم، اب کیجریوال سرکار کا کام شروع۔ دلی کے شہری کے بتائے گئے مقام پر ایک ٹیم آئے گی، ان کے پاس فوٹو کاپی مشین بھی ہوگی۔

یہ ٹیم اپنی کارروائی کرکے چلی جائے گی، اس کارروائی کے بعد سات دن کے اندر حکومت پابند ہوگی کہ وہ شہری کا ڈومیسائل یا لائسنس اس کے گھر پر مہیا کرے۔

اس طرح شہری کو نہ کہیں جانا پڑا، نہ دفتروں میں دھکے کھانے پڑے اور نہ ہی کسی کو رشوت دینا پڑی۔ اسے جس چیز کی ضرورت تھی وہ اسے گھر پر مہیا کر دی گئی۔

اس وقت دلی کی اسمبلی میں 62 نشستیں اروندکیجریوال کی عام آدمی پارٹی کی ہیں جبکہ مودی کی بی جے پی کے پاس صرف آٹھ نشستیں ہیں۔

دہلی ماڈل دیکھ کر بھارت کی دوسری ریاستوں کے لوگ اپنی اپنی حکومت سے سوال کرتے ہیں کہ بجلی، اسکول، صحت، ٹرانسپورٹ؟ جواب آتا ہے کہ کیسے کریں؟ لوگ جواباً کہتے ہیں جیسےکیجریوال نے دلی کے لوگوں کو سب مہیا کیا ہے۔

کیجریوال پر بہت دبائو تھا کہ وہ اپنی پارٹی کو دلی سے باہر نکال کر دوسری ریاستوں میں بھی لائیں کیونکہ کیجریوال کہتا ہے کہ ...’’ میں ہر شہری کا وزیر اعلیٰ ہوں خواہ اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ہو، خواہ وہ کسی بھی ذات کا ہو۔‘‘سیاسی دبائو پر کیجریوال نے پنجاب میں رسک لیا۔

پہلے آپ کو بتا دوں کہ پنجاب ہے کیا؟ 1947ء میں تقسیم سے پہلے پانچ دریائوں کی دھرتی پنجاب کے پانچ ڈویژن تھے۔ لاہور، راولپنڈی اور ملتان ہمارے حصے میں آگئے جبکہ دہلی اور جالندھر بھارت کے حصے میں، انہوں نے دہلی کو الگ ریاست بنا یا، پنجاب ہی سے نکال کر ہر یانہ کو الگ صوبہ بنایا، ہما چل پردیش کو بھی صوبہ بنایا۔

پنجاب کا بہت سا حصہ راجستھان کو دے دیا۔ اب جو باقی بچا وہی ہندوستان میں بچا کھچا پنجاب ہے۔ اسی سال 2022ء میں اروند کیجریوال نے اپنی پارٹی کو پنجاب میں الیکشن میں اتارا تو اس کی پارٹی نے بڑے بڑے لیڈروں کو ہرا کر 117 میں سے 92 سیٹیں جیت لیں۔

پنجاب کے لوگوں نے بھی دہلی ماڈل کو پسند کیا۔ کانگرس پھربھی اٹھارہ سیٹیں لے گئی، بی جے پی تو صرف ایک دو سیٹوں تک ہی محدود رہی۔ اب جب حلف کی باری آئی تو پنجاب کے نئے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے شہید بھگت سنگھ کے گائوں میں حلف لیا۔

ویسے بھگت سنگھ شہید نے کہا تھا کہ ...’’ اگر ہم آزادی کے بعد نظام نہیں بدلیں گے تو کچھ نہیں ہوگا...‘‘ کیجریوال کہتا ہےکہ ... ’’ہمارے دیس میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں نے انگریزں کا دیا ہوا نظام اپنا رکھا تھا، میں نے اسے بدل دیا ہے...‘‘۔

یاد رہے کہ اروند کجریوال نے پنجاب کے ہر گھر کیلئے 300یونٹ بجلی فری یعنی بلا معاوضہ کر دی ہے۔مجھے پاکستان کی تنزلی کا دکھ ہے، 60ء کی دہائی میں یہ ملک سب سے آگےتھا۔

90ء تک بھی ہمارا ایک روپیہ بھارت کے دو رپوں کے برابر تھا، بنگلہ دیش کاٹکہ ہم سے پیچھے تھا، ہماری حکومتوں اور ہمارے رہنمائوں نے یہ کیسا کھلواڑ کیا ہے، یہ لوگ ذاتی مفادات کا سوچتے ہیں، کاش یہ پاکستان کا سوچتے، میں بھی انگریز کے دیئے ہوئے نظام کے خلاف ہوں کیونکہ یہ نظام انگریزوں نے غلاموں کے لئے بنایا تھا۔ کاش ہمارے سیاستدان کیجریوال ہی سے کچھ سیکھ لیں۔

اگر وہ عوام کو بہت سی سہولتیں دے سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں؟ بقول اقبالؒ:

اے دوست کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے

گر چاہتے ہو منزل تو پرواز بدل ڈالو