غریب صارفین کیلئے ریلیف

July 06, 2022

بجلی کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے پیش نظر عوام کو نسبتاً سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے وفاقی حکومت نے ملک میں درآمدی ایندھن سے پاور پلانٹ لگانے پر پابندی لگا دی ہے۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ صرف مقامی وسائل سے چلنے والے بجلی کے نئے کارخانے لگائے جائیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں لائن لاسز میں کمی کیلئے بھی جامع پلان مرتب کرنے کافیصلہ کیا گیا۔ پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں میں کمی لانے کیلئے کوششیں تیز کرنے کا عزم کیا گیا یہ تمام فیصلے ملکی معیشت کیلئے خوش آئند ہیں بشرطیکہ ان پر پوری توجہ سے عمل کیا جائے۔ وزیر اعظم نے شدید گرمی اور حبس جو ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے کے مدنظر ہدایت کی ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ روزانہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ وفاقی سطح پر مہنگائی اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے غریب اور پسماندہ طبقوں کو ریلیف فراہم کرنے کے اقدامات کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی صوبے میں ایک سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے 90لاکھ گھرانوں یعنی تقریباً 5کروڑ غریب صارفین کو مفت بجلی مہیا کرنے کی نوید سنائی ہے۔ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعلیٰ حمزہ شریف نے اعلان کیا کہ اگست سے سو یونٹ تک بجلی کے تمام بل صوبائی حکومت ادا کرے گی۔ اس مقصد کیلئے ایک ارب روپے مختص کر دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ ضرورت مندوں کو سولر پینل بھی بلا معاوضہ فراہم کئے جائیں گے۔ ایسے وقت میں جب ملک میں توانائی کا بحران تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔بجلی کا شارٹ فال 8ہزار میگاواٹ کے قریب پہنچ گیا ہے اور اس کی طلب ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے، آئی ایم ایف کے تقاضوں کے تحت حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دوگنا سے زیادہ بڑھا دی ہیں، گیس اور بجلی نہ ملنے سے ٹیکسٹائل کے 400کے قریب کارخانوں کا پہیہ جام ہو چکا ہے جس سے ان کی ایک ارب ڈالر کی برآمدات کم ہوں گی۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے نہ صرف بجلی بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی عوام کو ریلیف پہنچانے کے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ اس حوالے سے یوٹیلیٹی سٹورز پر 86ارب روپے سے زائد کا بڑا ریلیف پیکیج قابل ذکر ہے جس کی وزارت صنعت و پیداوار نے سمری تیار کر لی ہے۔ یہ ریلیف روزمرہ استعمال کی پانچ بنیادی اشیا پر ملے گا جن میں آٹا ، چینی ، گھی ، دالیں اور چاول شامل ہیں، تاہم ملک میں مہنگائی اور بیروزگاری کی جو مجموعی صورتحال ہے اس کے پیش نظر مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت ایک طرف کسی معاملے میں ریلیف دیتی ہے تو ساتھ ہی کسی اور مد میں اخراجات کا بوجھ بڑھا دیتی ہے جس سے ملک کے 92فیصد غریب اور پسماندہ عوام کی محرومیوں کا ازالہ نہیں ہو سکتا۔ بجا کہ دنیا اس وقت کساد بازاری کا شکار ہے، تقریباً ہر ملک روس یوکرین جنگ اور بعض دوسرے عوامل کی وجہ سے مہنگائی سے دوچار ہے عالمی معیشت شدید دبائو میں ہے اور اس کے اثرات پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک پر بھی پڑ رہے ہیں مگر دور اندیش قومیں باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعے ایسے مشکل حالات میں بھی بہتری کا راستہ نکال لیتی ہیں۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ریاست کی جگہ اقتدار کی سیاست عر وج پر ہے۔ اپوزیشن لیڈر حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر اصلاح احوال کیلئے تدابیر اختیار کرنا کسرشان سمجھتے ہیں ان کی ساری توجہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے اور حکومتی اتحاد کی ساری کوششیں اقتدار بچانے پر مرکوز ہیں۔ ایسے میں نوابزادہ نصر اللہ خان جیسا کوئی مدبر ملک میں نہیں جو ان سب کو اکٹھا کر کے اجتماعی دانش کے ذریعے ملک کو مشکلات سے نکالنے کی راہ دکھا سکے۔ ملک و قوم کو اس وقت جن اندرونی اور بیرونی بحرانوں کا سامنا ہے ان سے نمٹنے کیلئے سیاستدانوں کو اقتدار سے زیادہ ملک اور عوام کی فکر ہونی چاہئے۔