ڈاکٹر عافیہ کی عظیم والدہ اور ملکی حالات!

August 07, 2022

اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ دنوں پاکستانی وزارتِ خارجہ کو حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر عافیہ سے ان کی فیملی کا رابطہ کروایا جائے اور اس باب میں عافیہ صدیقی کی فیملی کو امریکی سفارت خانے سے ویزے کے حصول کے لئے مکمل تعاون ومدد فراہم کی جائے۔مگرکس کو معلوم تھا کہ کئی سال سے بیٹی کی واپسی کی منتظر ماں اپنے دل میں ملاقات کی آس لئے اس جہان فانی سے کوچ کر جائے گی۔یہ ایک ایسی دکھی فیملی کی کہانی ہے کہ جس پر لکھتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ڈاکٹرعافیہ کو تین کمسن بچوں سمیت آج سے انیس سال قبل کراچی سے اغوا کیا گیا تھا، کراچی سے انھیں افغانستان اور پھر امریکی جیل منتقل کردیا گیا۔ ان کی والدہ عصمت صدیقی بڑی باہمت خاتون تھیں۔وہ اپنی بیٹی کا صبر و استقامت سے انتظار کرتی رہیں لیکن ان کو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوا۔مقام افسوس کہ نہ سابقہ حکومت کواورنہ ہی موجودہ حکومت کو عافیہ کی فیملی کو انصاف دلانے میں کو ئی دلچسپی ہے۔ دو جولائی کو عافیہ کی والدہ کے انتقال پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق، حافظ سعد رضوی، مصطفیٰ کمال اور دیگر قائدین ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لائے، وزیراعظم شہباز شریف نے فون پر تعزیت کی۔وزیراعظم کو عافیہ کے گھر تعزیت کے لئے آنا چاہئے تھا۔ حیرت تو یہ ہے کہ عمران خان نے ان کی فیملی سے اظہار تعزیت تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔سابق اور موجودہ حکمرانوں نے وعدوںکے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے اقدامات نہیں کئے۔عافیہ کی والدہ ایک عظیم خاتون تھیں۔ وہ برٹش انڈیا کی ریاست اترپردیش کے شہر بلند شہر میں 15اگست، 1939 ء میں پیدا ہوئیں۔وہ اعلیٰ حسب و نسب کی حامل ایک نجیب الطرفین خاتون تھیں۔ ان کے والد قاضی انعام حسین فاروقی اور والدہ عشرت جہاں فاروقی دونوں کا شجرہ نسب خلیفہ دوم حضرت عمرؓ سے ملتا ہے۔ ان کے نانا محمد یاسین فاروقی کی14 اولادوں میں صرف ان کی والدہ عشرت جہاں فاروقی ہی زندہ رہ سکیں۔ عصمت صدیقی کی عمر محض چھ ماہ تھی کہ ان کے والدقاضی انعام حسین فاروقی رضائے الٰہی سے فوت ہو گئے۔اس لئے ان کے نانا محمد یاسین فاروقی نے پہلے ان کی والدہ عشرت جہاں فاروقی اور بعد میں ان کو بڑے نازونعم سے پالا۔عصمت صدیقی چار بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں، ان سے بڑی ایک بہن اور دو بھائی تھے۔قیام پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کر کے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بلند شہر میں ہی حاصل کی۔ ان کا انتقال 2 جولائی کی صبح کراچی میں ہوا۔ انہوں نے لواحقین میں تین بچے کئی پوتے، پوتیاں اور نواسے نواسیاں چھوڑے ۔عصمت صدیقی کے دادا کا نام قاضی تجمل حسین فاروقی تھا جو دہلی دربار میں اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز رہے۔عصمت صدیقی کا خاندان ہمیشہ سے ہی دینی و دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم کے حصول کاحامی رہا ہے۔ ان کے دادا نے لندن سے بار ایٹ لا کی تعلیم حاصل کی اوردارالعلوم سے بھی ڈگریاں حاصل کی تھیں۔عصمت صدیقی نے ایک بھرپور زندگی گزاری۔ وہ ایک فعال سوشل ورکرتھیں۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق اور رفیق تارڑ کے دور میں ان کا رابطہ ایوان صدر سے رہتا تھا۔ انہوں نے زکوٰۃ و عشر کی ذمہ داریاں بھی دبنگ طریقے سے نبھائیں۔ صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں سیرت النبی ﷺ کے مقابلے میں ان کے مقالے کواول انعام بھی ملا۔ ان کی زندگی کے آخری 20سال انتہائی اہم رہے۔طویل سزانے ان کو کمزور کرنے کی بجائے مزید بہادر اور سخی خاتون بنا دیا تھا۔ وفات سے چند دن پہلے ڈاکٹر فوزیہ کو یہ کہنا کہ جاؤ بیٹی دبئی جا کر جنرل پرویز مشرف کو معاف کر آؤ۔ اس کے چندماہ بعد خالقِ حقیقی سے جا ملنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ نفس مطمئنہ کے ساتھ آخرت کے سفر پر روانہ ہوئی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ ضرور کہتی تھیں کہ مجھے اس حالت میں عافیہ کے دکھ نے نہیں بلکہ حکمرانوں کی بے حسی نے پہنچایا ہے۔

وطن عزیزپاکستان اس وقت نازک صورتِ حال سے دوچار ہے۔ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں اور ریاستی اداروں کوملکی مفاد میں مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنی چاہئے۔اختلافی معاملات کو طے کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔اب ملک کسی بھی محاذ آرائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مہنگائی اور ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف بھی پوری قوم سراپا ٔاحتجاج ہے، حکمرانوں کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کیونکہ ملک پہلے ہی معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

مہنگائی نے غریب کو دووقت کی روٹی سے بھی محروم کردیاہے۔ پوری ملتِ اسلامیہ ماہِ محرم الحرام میں احترام اور امن کو یقینی بنائے، کربلا کے شہداء خانوادہ رسولﷺ نے اسلامی اصولوں کی حفاظت کے لئے عظیم قربانیاں دیں۔ میدانِ کربلا میں حق اور باطل کا معرکہ، اہل ایمان کی مشترکہ طاقت ہے۔ ہمیں محرم الحرام کے مہینے میں امن وامان کا قیام یقینی بنانا ہوگا۔