چراغ سب کے بجھیں گے…

August 08, 2022

قانون کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔دنیا کے مہذب معاشروں میں قانون کی عملداری گویا مذہبی فریضہ تسلیم کی جاتی ہے۔ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلانا جرم ہے تو کوئی بھی شخص بغیر ڈرائیونگ لائسنس کے بھولے سے بھی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں بیٹھتا۔معمر قذافی کے بیٹے سیف الاسلام نے پیرس کی اہم شاہراہ شانزے لیزے پر قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے تیز رفتاری سے گاڑی دوڑائی۔فرانس کے صدر اور برطانیہ کےوزیراعظم سیف الاسلام کے ذاتی دوست تھے۔یورپ میں سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری سیف الاسلام کی کمپنی نے کی ہوئی تھی۔سیف الاسلام نے اثر و رسوخ اور دھن دولت کے نشے میں یورپ کا ایک قانون توڑا، انہوں نے جوابا ًًاس کا ملک ہی توڑ دیا اور جو کچھ سیف الاسلام کے ساتھ ہوا ،سب تاریخ کا حصہ ہے۔یہ ان معاشروں میں قانون کی عملدآری کی ایک مثال ہے۔جن معاشروں میں قانون کی عملدآری ختم ہوجاتی ہے،وہ معاشرے زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکتے۔

انسانی جبلت ہے کہ کوئی بھی باشعور آدمی جو کچھ کرتا ہے،اس کے حتمی نتیجے کا بھی اسے علم ہوتا ہےکہ اس نے کہاں پر کیا غلطی کی ہے اور اس کی سزا کیا ہوگی؟فارن فنڈنگ کیس میں تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان سے جو غلطیاں سرزد ہوئی تھیں۔وہ ذاتی طور پریہ علم رکھتے تھے کہ اس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔فارن فنڈنگ فیصلے میں پی ٹی آئی پرجو الزامات ثابت ہوئے ہیں،اب ان حقائق کا تحریک انصاف کو سامنا کرنا ہوگاکیوں کہ عمران خان اور تحریک انصاف چاہے پوری دنیا میں مقبول ہو جائیں لیکن صرف اس وجہ سے الیکشن کمیشن ان کے جرم کو نظر انداز نہیں کرسکتا کہ وہ بہت مقبول ہیںاور ان کے مقدمے کے ٹرائل میں تو یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ غلطی جان بوجھ کر کی گئی ہے،اس لیے غلطی ،غلطی نہیں رہی بلکہ جرم بن گیا۔لیڈر کی پہلی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ سچ اور حقائق کا سامنا کرتا ہے۔یہ نہیں ہوتا کہ مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو اداروں پر تنقید شروع کردی جائے اور ان پر پریشر ڈال کر انہیں متنازعہ بنایا جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بہت کوشش کی کہ الیکشن کمیشن پر پریشر ڈال کر اسے دباؤ میں لایا جائے مگر ان کا یہ حربہ کامیاب نہ ہوسکابلکہ اس حوالے سے مزید بحران جنم لینے کا خدشہ ہے۔سیاسی جماعتوں کے درمیان شدید ٹکراؤ کی کیفیت پیداہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگاکہ نواز شریف کو بطور وزیراعظم ایک اقامہ پر نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔مسلم لیگ ن نے جمہوری روایات کے مطابق شدید احتجاج کیا مگر فیصلہ قبول کیا۔ملک کو انتشار کی طرف نہیں لے جایا گیا۔آج الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس کے بعدعمران خان کے پاس اپیل کے فور م مو جو د ہیں وہ ان فورمز سے رجوع کرنے کا مکمل حق رکھتے ہیں ۔ لیکن اخلاقی طور پر عمران خان کو یہ جواب دینا ہو گا کہ وہ اگرحق پر ہیں تو پھر عارف نقوی اور ان کے متعلق چھپنے والی خبرپربرطانوی اشاعتی ادارے کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس کیوں نہیں کیاگیا؟اور اگر سچے نہیں ہیں تو پھر انہیں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا احترام کر نا چاہئے۔چیف الیکشن کمشنرکا پورا کیریئر بے داغ رہا ہے۔انہوں نے ہمیشہ میرٹ اور قانون کی عملدآری کو یقینی بنایا۔مسلم لیگ ن جب برسرِاقتدار تھی تو مسلم لیگ کے وزرا کو ایک ہی شکایت رہتی تھی کہ راجہ سلطان سکندر ہمارے کام نہیں کرتا،پھر تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں سیکریٹری ریلوے لگایا تو عمران خان کے پاس تحریک انصاف کے وزرا نے ان کے شکایات کا انبار لگا دیا کہ سلطان سکندر راجہ کو تبدیل کریں۔چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ آیا تو تحریک انصاف نے ان کا نام تجویز کیا۔مسلم لیگ ن شش وپنج میں تھی کہ اس نام پر اتفاق کیا جائے یا نہیں۔پارٹی کے سینئر رہنماؤں اور مسلم لیگ ن کے قریب سمجھے جانے والے بیوروکریٹس نے مشورہ دیا کہ یہ افسر دیانتدار ہے۔صرف اس وجہ سے اس نام سے اختلاف نہ کریں کہ ان کا نام عمران خان نے دیا ہے۔یوں عمران خان کے تجویز کردہ افسر ہی چیف الیکشن کمشنر کے منصب پر براجمان ہوئے،جس کے بعد ان کے ہوتے ہوئے تحریک انصاف جب حکومت میں تھی توضمنی انتخابات میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔آج وہی چیف الیکشن کمشنر ہیں اور مسلم لیگ ن حکومت میں ہے اوراب ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔چیف الیکشن کمشنر کی ساکھ کو جانچنے کا اس سے بہتر کوئی اور پیمانہ نہیں ہوسکتا۔خدارااپنی ذات سے باہر نکل کر سوچئے اور اپنی ذات کو ریاست سے بڑا نہ سمجھیں۔ آئینی اداروں کو اگرکسی بھی سیاسی رہنما کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا تو پھر یاد رکھیں کہ چراغ سب کے بجھیں گے،ہوا کسی کی نہیں.....

تمام سیاستدانوں سے بھی عرض ہے کہ ہوش کے ناخن لیں،ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہوجائےکیوں کہ اگر پچ ہوگی تو آپ سب اس پرکھیل سکیں گے۔پہلے ہی پچ سے متعلق غلط پیش گوئیوں نے شہباز شریف جیسے اچھے کھلاڑی کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے،کیونکہ کھلاڑی جتنا بھی اچھا ہو، بارش کے بعد پچ سےمتعلق کوئی پیش گوئی نہیں کرسکتاکہ وکٹ کھیلنے کے قابل رہی ہے یا نہیں،یہی شہباز شریف کے ساتھ ہوا ہے۔مگر اب کی بار یہ نہ ہو کہ سیاستدانوں کی اس دھینگا مشتی میں پچ پر قبضہ ہی ہوجائے اور قبضہ کرنے والا یہ نعرۂ مستانہ بلند کرے کہ

تم اپنے حصے کی چال، چل بیٹھے

ہمارے منتظر رہنا کہانی ختم کرنی ہے