کربلا کا پیغام

August 09, 2022

آج ماہ محرم الحرام 1444ہجری میں ہم اسلامی کیلنڈر کے اکسٹھویں برس اسی تاریخ کو میدان کربلا میں ہونے والے معرکے اورا س سے جُڑے پہلے اور بعدکے واقعات کو یاد کر رہے ہیں تو گردوپیش کی کیفیت یہ ہے کہ دنیا ایسی تقسیم سے دوچار ہے جس میں ایک طرف جنگ کے خطرات سے لے کر کساد بازاری اور قحط سالی تک کے آثارنظر آرہے ہیں ،تو دوسری طرف دنیا کے ایک بڑے حصّے بالخصوص ترقی پذیر کہلانے والے ملکوں میں اشرافیہ روپ بدل بدل کر تمام وسائل اپنے تصرف میں رکھنے کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود کرۂ ارض کے ہر حصے سے کسی نہ کسی درجے میں فسطائیت، آمریت، مطلق العنانیت، اور استحصال کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں تو اس میں نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور ان کے شرکائے قافلہ کی میدان کربلا میں پیش کی گئی قربانی کا بڑا دخل ہے ہجری کیلنڈر کے ساٹھویں برس 28رجب کو عورتوں اور بچوں سمیت 112افراد پر مشتمل جو قافلہ مدینۃ النبیؐ کی حرمت حاکم وقت کی فوجوں کے ہاتھوں پامالی سے بچانے کے لئے نکلا اور بعدازاں حرم کعبہ کو بے حرمتی سے بچانے کے لئے وہاں سے بھی کوچ پر مجبور ہوا اس کا سفر ظاہری طور پر اس وقت ختم ہوگیا جب 10محرم ٰ61ھ کو نواسہ رسولؐ کا سر نیزے پر بلند کردیا گیا اور خاک کربلا حضرت امام حسینؓ سمیت 72نفوس قدسیہ کے کٹے پھٹے جسموں کی امین بنی۔ یہ سفر آج بھی جاری ہے۔ آج کی کربلا کشمیر و فلسطین ہی نہیں ہر اس مقام پر جاری ہے جہاں انسانوں کے بنیادی حقوق پامال ہورہے اور جان و مال خطرے میں ہیں۔ جب جب، جہاں جہاں حق و صداقت کے لئےجدوجہد کرنے والے قافلے اُٹھ رہے ہیں یا اُٹھیں گے ان کے لئے میدان کربلا منارہ نور بنا ہے اور بنا رہے گا۔ بات یہاں سے چلی تھی کہ رسول اللہﷺ کے قائم کردہ احکامات قرآنی پر مبنی سماجی مساوات، عدل گستری اور شورائیت پر مبنی سماجی و حکومتی نظام کو یزید کی تخت نشینی کے ذریعے ایک طرف وراثتی مطلق العنانی میں بدل دیا گیا دوسری جانب شرعی احکام میں ردوبدل کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔ امام عالی مقامؓ سے کیا جانے والا مطالبہِ بیعت دراصل اس عمل پر مہر تصدیق ثبت کرانے کی کوشش تھی۔ آغوش رسالتؐ میں پرورش پانے اور خلفائے راشدین کے ادوار حکومت دیکھنے والے امام حسینؓ سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا کہ اس کے مضمرات کیا ہونگے۔ تاہم ان کے لئے یزید کی بیعت کرنا جتنا ناممکن تھا اتنی ہی یہ بات دشوار تھی کہ مسلم امہ کو خونریزی ، خلفشار اور تقسیم سے دوچار ہونے دیا جائے۔ اس میں کلام نہیں کہ ان کی ایک آواز پر لاکھوں افراد سر کٹانے کے لئے ہر سمت سے چلے آتے۔ مگر انہوں نے ظاہری فتح کی ہر صورت پر ظاہری شکست کی ہر صورت کو ترجیح دی ۔ ایسا راستہ اختیار کیا کہ موت، مرگ اور شکست کا مفہوم ہی بدل گیا یہی طریقہ تھا جس کے ذریعے وہ اپنے ناناکی امت کو تقسیم سے بچاسکتے تھے ساتھ ہی انہوں نے ملت اسلامیہ کو واضح پیغام دے دیا کہ احکام الٰہی کی پیروی اور دین کی سربلندی کے لئے اپنی انا، جان مال، اولاد سمیت ہر عزیز شے کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہا جائے۔ نواسہ رسولؐ کی عظیم قربانی کے نتیجے میں جو فضا پیدا ہوئی اس میں دین متین میں تبدیلی لانے کی کوششیں نہ صرف اُس وقت ختم ہوگئیں بلکہ واضح ہوگیا کہ تاقیامت ایسی کوششیں ناکام ہوتی رہیں گی۔ اِس وقت، کہ عالم اسلام سنگین ترین چیلنجوں سے دوچار ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ امام عالی مقام کی قربانی کی روح کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم حکمراں بین الممالک سطح پر امت کے اتحاد و ترقی اور اندرون ریاست عام آدمی کو مساوات کی اس سطح پر لانے کی کاوشیں کریں جن کا دین اسلام ان سے تقاضا کرتا ہے۔