انگریزوں سے آزادی اور 75 برس

August 12, 2022

سال کے سال جب 14؍اگست آتی ہےتوہم چند رَٹے رَٹائے فقرے کہتے ہیں کہ اس ملک کی تعمیر میں ہمارے بزرگوں کا خون شامل ہے۔ اس فقرے کی وضاحت کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جب سے پاکستان میں گزشتہ 30برس میں اور انڈیا میں گزشتہ 8 برس سے مذہبی جنونیت قتل و غارت اور نفرتوں کو انگیخت کرتی رہی ہے۔ اب لوگ یاد کرتے ہیں کہ مودی صاحب کے زمانے میں بھی دوستی ٹرین، دوستی بس چلا کرتی تھی۔ ہم میں سے کچھ ادیب اور صحافی بھی کشمیر جانے کے موقع سے آشنا ہوئے تھے۔ زعفرانی قہوہ اور شب دیگ خوب مزے لے کرکھائی پھر تعلقات، سرحدوں پر ہی بند نہیں ہوئے، نفرتوں کو بڑھانے میں انڈین صحافیوں نے میڈیا کے ذریعے اور حکومتی اداروں نے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پہلے نام بدلا، برقعہ پہننا بند کیا، کورس میں سے مولانا مودودی اور دیگر عالم حضرات کی تحریروں کو نکال دیا۔ مغلوں کی تاریخ کو نکال دیا۔ گائے کے گوشت کا بہانہ بناکر بہت سے معصوم لوگوں کو قتل کیا گیا۔ پاکستان میں بھی ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کے جنون نے خاص کر سندھ میں فروغ پایا۔ بابری مسجد کے واقعہ سے یہاں بھی مذہب پرستوں نے تاریخی مندروں کو توڑنا، عین عبادت سمجھا۔ یوں نہلے پر دھلا، دونوں ملکوں میں ہر چیز پر تالے لگادیے۔ پہلے انڈیا میں لوگ پی ٹی وی کے ڈرامے بہت پسند کرتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی بھشم ساہنی کے ناول تمس پر بنائے گئے ڈراموں کو بہت پسند کیا گیا۔ انڈیا میں ہم سب کی کتابوں کے ترجمے ہوتے تھے، پاکستان میں اجمل اور آصف، انڈیا کی دوسری زبانوں کی کہانیاں ترجمہ کرتے تھے۔ انڈیا کے لوگ ریشماں، فریدہ خانم اور نور جہاں کے دیوانے تھے۔ پاکستان میں بسم اللہ خان سے لتا اور رفیع سب کو محبت سے سنا جاتا تھا۔ ہمارے یہاں اپنے مطلب کے لئے سربراہوں نے ایک دوسرے کے ملک میں کرکٹ میچ دیکھنے کے نام پر دوستی کا ہاتھ مصنوعی طریقے سے بڑھایا۔ انڈیا نے 3سال ہوئے کشمیر کو علیحدہ حیثیت سے ہٹاکر انڈیا میں شامل کرنے اور سارے قانونی نکات ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ گویا امن اور آپس کے تعلقات، تجارت، آمدورفت، فلموں، ٹی وی ڈراموں حتیٰ کہ دونوں ملکوں نے سفارت خانوں کو بھی کسی قابل نہ چھوڑا۔ اس سے نہ حکومتوں کو فائدہ ہوا، نہ عوام کو، وہ دوائیں جو ہندوستان سے آتی تھیں، وہ دبئی کے رستے آنے لگیں۔ خرچہ بڑھا، دوائیاں مہنگی ہوگئیں۔ پاکستان نے منہ زبانی ایک دو بار امن کے لئے ہاتھ بڑھانے کا کہا۔ پاکستان نے سارک ممالک کانفرنس کے لئے بھی کہا مگر ہندوتوا کے فروغ نے تو اردو کو بھی نصاب سے نکال دیا۔ نقصان کس کا ہوا۔ دونوں ملکوں میں اسلحہ کی خریداری اور دہشت گردی بڑھی۔ غربت اور آبادی بڑھی۔ نفرتیں گہری ہوئیں۔ بنیادی تحریک جو انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے تھی، وہ فراموش کردی گئی۔ انڈیا میں 20کروڑ مسلمانوں کو اقلیت بنانے کیلئے ہندوئوں کا اپنی آبادی بڑھانے کے نعروں کو رواج حاصل ہوا، دونوں ملکوں نے 2006میں طے کیا تھا کہ بارڈر دونوں سائیڈ کشمیر پر سافٹ کئے جائیں گے۔ لوگ اپنے اپنے رشتہ داروں سے ملیں گے۔ تجارت اور سفارت بہتر ہوگی۔ دو ایک سال بڑے اچھے گزرے۔ ان حالات میں نقصان کس کا ہوا، عوام کا۔ نئی نسل کا اور ان کے امن کے خوابوں کا۔ حالانکہ دونوں ملکوں میں لوگ آج بھی دال روٹی کھاتے ہیں۔ اب لوٹیں وطن اور اس کے حالات کی جانب۔ سیلاب کی تباہ کاریاں شہر کے شہر اجاڑ گئی۔ بلوچستان کے طوفان نے صوبے کی بنیادیں ہلادی ہیں۔ شیری بی بی نے لوگوں کو گھر دوبارہ بنانے کے لئے چیک دیئے ہیں۔ جتنی تباہی ہوئی ہے، وہ مطالبہ کرتی ہے کہ سڑکوں، پلوں، ڈیم، اسکول، ہسپتال گویا ہر ضرورت کی چیز جس میں بھی ان کی روزی کا اہتمام ہو، سرکار کو یہ منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ دنیا بھر کے ملکوں اور صاحب حیثیت لوگ فوری مددکریں جو صرف سرمائے کی شکل میں نہ ہو۔ جس طرح زلزلے کے دوران، ترکی نے یونیورسٹی، گورنمنٹ سیکرٹریٹ اور کئی دیگر عمارتیں بناکر دی تھیں اور کیوبا کے ڈاکٹروں نے کشمیر کے زخمی لوگوں کی خدمت کی، بچوں کے منہ دہلائے۔ کہنے کو تو عمران نے بھی اپنے رضاکاروں کی فوج بنائی ہوئی تھی جن کو ہزاروں کی تعداد میں اسلام آباد بلایا تھا۔ اس جانب پی ڈی ایم کی گیارہ پارٹیوں کے رضاکاروں اور دنیا بھر کے خاص طور پر امیر مسلمان ملکوں کو توجہ کرنی چاہئے۔ تمام فنڈنگ اداروں کو، پاکستان کیلئے مختص وسائل کو بلوچستان کی تعمیر میں صرف کرنا چاہئے۔ یہ موقع ہے کہ ہم سب مل کر بلوچ قوم پرستوں کو ساتھ ملاکر اس صوبے کی 75 سالہ شکایات کا ازالہ کریں۔ یہ بھی یاد دلادوں کہ ابھی تک زلزلے میں جو جو شہر تباہ ہوئے تھے مثلاً مانسہرہ، باغ اور دیگر وہ اب تک تعمیر کے مرحلے سے نہیں گزرے، بالکل اس طرح گزشتہ سیلاب میں جو علاقے تباہ ہوئے، وہ تباہی کے نشانات لئے نوحہ کناں ہیں۔ فی الوقت بلوچستان کے علاوہ جنوبی پنجاب بھی پانی کے ریلے کے آگے، انسان اور حیوان، سب بہہ گئے ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ نہ فصلیں ہیں اورنہ مال مویشی۔ ملک کی مالی حالت پہلے ہی پتلی ہے۔ اب موقع ہے کہ عمران، شہباز اور نواز شریف اپنی جیبیں ہلکی کریں۔ پاکستان کے بزنس ٹائیکون کو بلایا جائے۔ پاکستان میں 80ہزار مدرسے اور ایک کروڑ علما ہیں۔ انہوں نے بھی ہر حکومت کے دور میں اہل سیاست کی خوشنودی حاصل کی ہے۔ تباہی تو سندھ میں بھی آتی ہے۔ کے پی کے پہاڑی علاقے تک ہل گئے ہیں اس وقت کوئی مدر ٹریسا اور کوئی ایدھی نہیں ہے جو نعرۂ مستانہ لگائے اور ان خانوں، سرداروں اور ریاض ملک جیسے لوگوں کو غریب نوازی پر آمادہ کرے۔