قومی ڈائیلاگ ضروری

August 16, 2022

مہذب جمہوری ملکوں میں سیاسی، اقتصادی، سماجی اور دوسرے قومی مسائل پر سیاسی پارٹیوں میں اختلاف رائے کا پیدا ہونا معمول کا عمل ہے جسے جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے نقطہ نظر کو ہی درست سمجھتی ہے مگر مخالفین پر چڑھ دوڑنے اور ان کی رائے کو یکسر مسترد کرنے کی بجائے دلائل سے انہیں قائل کرتی ہے۔ اگر دوسروں کے موقف ہیں وزن ہو تو اسے کلی نہیں تو جزوی طور پر قبول کرنے کو بھی آمادہ رہتی ہے۔ یوں سنجیدہ مسائل و معاملات کا قومی اتفاق رائے سے قابل قبول حل تلاش کرلیا جاتا ہے ، کسی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا جاتا۔ پاکستان کے یوم آزادی پر وزیراعظم شہباز شریف نے قومی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا آغاز میثاق معیشت پر گفتگوسے ہوسکتا ہے۔ یہ ایک سنجیدہ تجویز ہے جس پر تمام سیاسی قوتوں، اداروں اور اہل علم ودانش کو غوروفکر کرنا چاہئے۔ مگر جو لوگ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں وہ دوسری کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایک سیاسی پارٹی نے جو مرکز میں اقتدار پر متمکن رہ چکی ہے اور اب بھی دو صوبوں میں اس کی حکومتیں ہیں۔ تفکر وتدبر سے کام لئے بغیر ہی اس حکومتی پیشکش کو ’’احمقانہ‘‘ قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ پارٹی کے ایک رہنمانے حکومتی انتظامات کے تحت منعقد ہونے والی یوم آزادی کی تقریبات پر بھی اعتراض جڑ دیا اور کہا کہ ان کا معیار انتہائی شرمناک تھا۔ ان پر عوامی پیسے کی رقم برباد کردی گئی۔ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے ہر پارٹی موقع کی تلاش میں رہتی ہے مگر اس کے لئے 14 اگست کا انتخاب افسوس ناک ہے۔ اس مرتبہ یہ پاکستان کی گولڈن جوبلی کا دن بھی تھا جسے پوری قوم نے جوش وخروش سے منایا۔ ملک بھر میں جشن منایا گیا اور وطن عزیز سے بے پناہ محبت کے مناظر دیکھنے میں آئے، اتنی زیادہ تعداد میں اور اتنی شاندار تقریبات شاید ہی کبھی منعقد ہوئی ہوں۔ وزیراعظم نے اس موقع پر معیشت سمیت ملک کو درپیش دوسرے مسائل پرقومی مکالمے کی تجویز پیش کی جس پر وہ پہلے بھی زور دیتے رہے ہیں۔ ملک اس وقت کئی اندرونی و بیرونی بحرانوں سے گزر رہا ہے۔ سیلاب نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ دہشت گرد پھر سے سراُٹھا رہے ہیں، غیرملکی دشمن قوتیں قومی سلامتی کے درپے ہیں۔ بعض عاقبت نااندیش عناصر ملکی دفاع کی ضامن مسلح افواج کے خلاف شرانگیز مہم چلارہے ہیں۔ ان کے پیچھے کون ہے، اس کا اظہار ان میں سے بعض نے اپنی ٹی وی انٹرویوز میں بھی کیا ہے، اس پر مستزاد، سیاسی عدم استحکام آخر حدوں کو چھورہا ہے جو ملک کے لئے کسی سانحے کا بھی پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ یہ تشویشناک صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیاں اور قومی ادارے جنہیں ایک ایک کرکے متنازعہ اور بے توقیر کیا جارہا ہے مل بیٹھیں۔ زوال پذیر معیشت سمیت جس کی بحالی کے امکانات روشن ہورہے ہیں، تمام اختلافی امور پر ٹھنڈے دل سے ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور قوم کے اندر مایوسی، انتشار اور خلفشار کو روکنے کے لئے اپنی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے دوراندیشانہ فیصلے کریں۔ جمہوریت میں سیاسی پارٹیاں حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ، روشن اور محفوظ مستقبل کی طرف عوام کی رہنمائی کرتی ہیں۔ اقتدار کو اصل مقصد نہیں سمجھتیں نہ اس کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاستدان آپس میں دست وگریباں ہیں اور باہمی سیاسی تنازعات خود حل کرنے کی بجائے عدالتوں میں جارہے ہیں۔ اس تشویشناک صورتحال میں قومی ڈائیلاگ ضروری ہے۔جو لوگ آئین وقانون کی دھجیاں اُڑا کر افراتفری ، ایجی ٹیشن اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، کل انہیں خود بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہیں اپنی بجائے قوم کی فکر کرنی چاہئے۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، قوم اور ملک نے ہمیشہ رہنا ہے ۔