تائیوان کا سوال

August 16, 2022

آبنائے تائیوان سے لے کر پورے ایشیا پیسفک میں ایک غیر معمولی کیفیت کا آغاز ہو گیا ہے ۔ اسی سبب چین نے تائیوان کے حوالے سے ایک پالیسی پیپر’’ Taiwan question and China's unification in new era‘‘جاری کیا ہے جو تائیوان کے حوالے سے چین کے عزم ، اعتماد اور صلاحیت کا مکمل طور پر اظہار کر رہا ہے ۔ در حقیقت صورت حال یہ ہے کہ نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کے اثرات ایک تسلسل کے ساتھ قائم ہو رہے ہیں آبنائے تائیوان میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے میرے ایک چینی دوست نے مجھے کہا کہ یہ اثر و رسوخ کی نہیں بلکہ مستقبل کے اثرات کی جنگ ہے ۔ پاکستان بجا طور پرایک چین پالیسی کی حمایت کرتا ہے اس پاکستانی حمایت سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کر لینا چاہئے کہ یہ پاکستانی موقف اس سبب سے اختیار کیا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں ۔ یقینی طور پر پاکستان اپنے دوست چین کے ساتھ ہے اور ہونا بھی چاہئے مگر یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ چین کا تائیوان کے حوالے سے موقف نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر درست ہے بلکہ اس کو بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی بھی مکمل تائید حاصل ہے ۔

اور جب ہم بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو اس سے پاکستان خود بھی وابستہ ہے۔ کیونکہ مسئلہ کشمیر پر ہمارا موقف بھی بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات پر مبنی ہے اگر کسی بھی بین الاقوامی قانون یا اخلاقیات کے منافی کوئی اقدام کہیں بھی کیا جاتا ہے تو اس کے مضر اثرات کشمیر کے حوالے سے ہمارے موقف پر بھی پڑیں گے ۔ تائیوان میں جب سے ڈی پی پی کی حکومت قائم ہوئی ہے اس وقت سے اس چینی صوبے پر قائم حکومت نے ایسی حرکات کرنا شروع کر دی ہیں جو’’ ایک چین ‘‘اصول کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔

عسکری معاملات سے لے کر سفارتی معاملات تک واقعات کا ایک تسلسل ہے جو تائیوان کی جانب سے کیا جا رہا ہے اور اس لئے چین میں بجا طور پر تشویش کی لہر محسوس ہو رہی ہے ۔ اگر ہم تائیوان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ یہ علاقہ زمانہ قدیم سے چین کا حصہ رہا ہے اور اس کو ہمیشہ سے چین کے ایک حصے کے طور پر ہی دیکھا جاتا تھا چلو زمانہ قدیم کی تاریخ میں تو نئی نئی اختراعات کی جا سکتی ہیں لیکن اگر ہم جدید دنیا کی تاریخ بھی اٹھا کر دیکھیں تو ہمارے سامنے یہ حقیقت ہوگی کہ دنیا بھر میں تائیوان کو ایک چینی صوبے کے طور پر ہی دیکھا جاتا رہا ہے ۔

کمیونسٹ پارٹی، چین نے 1921میں اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے اس موقف کو بیان کیا ہے کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور اس کو مرکزی حکومت کے ساتھ منسلک کیا جائے گا، خیال رہے کہ انیس سو اکیس میں اس علاقے پر جاپان نے غاصبانہ طور پر قبضہ کر رکھا تھا ، مگر جاپان سمیت دنیا اس کو غاصبانہ قبضہ ہی قرار دیتی تھی ۔ مثال کے طور پر یکم دسمبر 1943کو قاہرہ ڈکلیریشن جاری ہوا۔ اس ڈکلیریشن پر امریکہ ،برطانیہ اور چین نے دستخط کئے جس میں اس بات کوتسلیم کیا گیا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے اور جاپان کے قبضے کے اختتام پر چین کی عملداری کو بحال کیا جائے گا ۔

اسی نوعیت کے ایک معاہدے کا اعلان 26جولائی 1945کو امریکہ، برطانیہ اور چین نے کیا۔ اس کے کچھ عرصے بعد اس معاہدے کی توثیق سابقہ سوویت یونین نے بھی کردی۔ یہ امر تاریخ کے طالب علموں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر جب ہتھیار ڈالے تو اس نے اس معاہدے پر کاربند رہنے کا اعلان کرتے ہوئے تائیوان پر چین کی عملداری کو تسلیم کر لیا ۔ قاہرہ ڈکلیریشن سے جاپان کے ہتھیار ڈالنے تک ایک بار نہیں بلکہ بار بار امریکہ اور برطانیہ نے اس بات کو تسلیم کیا، اس کا اعلان کیا کہ تائیوان چین کا ایک صوبہ ہے۔جب 1949 میں چین میں کمیونسٹ انقلاب آ یا تو اس کی مخالفت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چین کو اس کے حق سے محروم کردیا گیا اور تائیوان پر ناجائز قابض جنرل چیانگ کائی شیک کی حکومت کو اقوام متحدہ میں نشست دے دی گئی۔ یہ مکمل طور پر ایک نا انصافی تھی ۔ اس کو حل کرنے کے لئے پاکستان نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور اکتوبر انیس سو اکہتر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جنرل چیانگ کی ناجائز حکومت سے چین کی نمائندگی کا حق واپس لے لیا گیا اور چین کی اصل حکومت کو تسلیم کر لیا گیا اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ’’ ایک چین‘‘ پالیسی کو تسلیم کرتے ہیں ۔

مگر ابھی نينسی پلوسی کے دورے نے اس حوالے سے کشیدگی کی فضا قائم کر دی ہے ۔چین سمجھتا ہے کہ تائیوان کا کوئی فوجی حل مناسب نہیں کیونکہ اس طرح تائیوان میں بسنے والے بے گناہ عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ بھی چینی ہی ہیں ۔ اس لئے چین مستقل طور پر’’ ایک چین‘‘ اصول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تائیوان کو چین کے ساتھ دوبارہ مرکزی حکومت کے تحت لانے کیلئے پرامن ذرائع استعمال کرتا ہے۔

صدر شی کے دور حکومت میں اس حوالے سے بہت زیادہ کام کیا گیا ہے، تجارت بہت بڑھ گئی ہے دونوں طرف کے شہری بڑے پیمانے پر ایک دوسرے کی طرف سفر کر رہے ہیں ۔ انیس سو ستاسی میں صرف پچاس ہزار افراد نے ایک دوسرے کی طرف سفر کیا تھا مگر 2019میں یہ تعداد نوےلاکھ تک پہنچ گئی ہے چین نے تائیوان کو’’ ایک چین ‘‘ اصول کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ملک دو نظام کاحل پیش کیا ہے جس میں تائیوان کی سماجی و مذہبی زندگی اور خودمختاری کو تحفظ حاصل ہوگا ۔ تائیوان کے سوال کا یہی ایک مناسب جواب ہے اس کے علاوہ اشتعال انگیزی کرنے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔