الظواہری کا قتل اور طالبان

August 17, 2022

کابل کے شہریوں کے لیے یہ ایک معمول کی صبح تھی۔ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری معمول کے مطابق نمازِ فجر سے فارغ ہوکر شہر کے پوش علاقے میں واقع اپنے گھر کی بالکونی میں آئے تو یہ ان کی آخری صبح ثابت ہوئی، امریکی سی آئی اے کے ڈرون حملے نے ان کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ وہ اس مکان میں اپنی فیملی کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ ایمن الظواہری پر خصوصی نوعیت کے دو Hellfire امریکی میزائل فائر کئے گئے جس سے نہ تو گھر کو نقصان پہنچا اور نہ ہی ایمن الظواہری کی فیملی کا کوئی فرد زخمی ہوا لیکن جدید ٹیکنالوجی کے میزائل میں لگے بلیڈز نے ایمن الظواہری کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے۔ اس طرح نائن الیون کے21 سال بعد ایمن الظواہری کی تلاش کا امریکی مشن مکمل ہوا۔بعد ازاں امریکی صدر جوبائیڈن نےاپنی قوم کو یہ خوشخبری سنائی کہ 9/11 کے ماسٹر مائنڈ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کابل میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں اور ان کی موت سے امریکی شہریوں کو انصاف مل گیا ہے،ہم ہر قیمت پر امریکہ کا دفاع اور دشمنوں کا تعاقب کریں گے۔دوسری جانب طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی ڈرون حملے کی تصدیق کرتے ہوئے اس کی شدید مذمت اور حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے تاہم وہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کا کوئی جواز پیش نہ کرسکے۔

73 سالہ ایمن الظواہری کا تعلق مصر سے تھا اور وہ پیشے کے لحاظ سےایک سرجن اور اسامہ بن لادن کے ذاتی معالج بھی تھے۔ افغانستان پر روسی یلغار کے نتیجے میں ہونے والے جہاد کے دوران اسامہ بن لادن نے ایمن الظواہری کے ساتھ مل کر القاعدہ کی بنیاد رکھی جو بعد ازاں دنیا کی سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم بن گئی۔ ایمن الظواہری کا شمار اسامہ بن لادن کے بااعتماد ساتھیوں میں ہوتا تھا اور انہیں نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ بھی کہا جاتا تھا۔ نائن الیون کے بعد اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری امریکہ کا اہم ہدف تھے اور امریکہ نے ایمن الظواہری کے سر کی قیمت 25 ملین ڈالر مقرر کی تھی۔ ایمن الظواہری کی پراسرار ڈرون حملے میں موت سے ایک نئی بحث نے جنم لیا کہ حملے میں استعمال ہونے والا امریکی ڈرون کہاں سے اڑ کر کابل آیا تھا؟ اطلاعات کے مطابق حملے میں استعمال ہونے والا ڈرون کرغزستان میں قائم امریکی ایئر بیس گانچی سے اڑ کر آیا تھا مگر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ٹرولرز نے اس ڈرون حملے کو اپنے گھنائونے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا ، یہ پروپیگنڈہ چوں کہ جھوٹا تھا جس کی جلد قلعی کھل گئی ۔

ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی اور ڈرون حملے میں قتل نے طالبان حکومت کے لئے نئی مشکلات پیدا کردی ہیں کیوں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ طالبان، افغانستان میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو پناہ نہیں دیں گے مگر ایمن الظواہری کی فیملی کے ہمراہ کابل میں موجودگی معاہدے کی خلاف ورزی تصور کی جارہی ہے اور تاثر ابھرا ہے کہ ایمن الظواہری اور ان کی فیملی طالبان کے خصوصی مہمان تھے اور کابل کے پوش علاقے میں طالبان نے انہیں گھر فراہم کیا تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کابل پر ڈرون حملہ طالبان حکومت کے لئے شرمندگی کا سبب ہے جس کے نتیجے میں امریکہ، طالبان تعلقات جو پہلے ہی تنائو کا شکار تھے، مزید کشیدہ ہوجائیں گے اور طالبان کو دنیا سے ملنے والی امداد بھی متاثر ہوگی جب کہ امریکہ افغانستان کے مرکزی بینک کے ضبط کئے گئے اربوں ڈالر واپس کرنے میں حالیہ واقعہ رکاوٹ بنے گا۔

ایسے میں جب امریکی معیشت دبائو کا شکار ہے اور مہنگائی، شرحٔ سود اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے اور روس یوکرین جنگ کے باعث صدر جوبائیڈن کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے جارہا تھا، ایمن الظواہری کےقتل سے نہ صرف جوبائیڈن بلکہ ان کی پارٹی ڈیمو کریٹک کی مقبولیت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیوں کہ اس سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن کےمارےجانے سے اوباما کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا ۔ حالیہ واقعہ طالبان کیلئے بھی یقیناً شرمندگی کا باعث ہے، وہ ایمن الظواہری کی کابل میں موجودگی کی عالمی سطح پرکس طرح وضاحت پیش کریں گے؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اگر اپنے دفاع میں کسی بھی آزاد ملک پر اس جواز کے ساتھ حملہ کرسکتا ہے کہ وہاں موجود دہشت گرد امریکی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں تو امن و امان کی ضمانت کیسے دی جاسکتی ہے بلکہ اس سے دنیا مزید غیر مستحکم ہوگی اور امریکہ سمیت دیگر بڑے اور طاقتور ممالک عالمی قوانین کی پابندی کرکے ہی کرۂ ارض پر امن کی ضمانت دے سکتے ہیں۔امریکہ کو چاہئے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے گریز کرے جس سےامن کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور دنیا مزید غیر محفوظ ہوسکتی ہے۔