اقتصادی حالت، لیکوڈیٹی اور مارکیٹ

August 18, 2022

(گزشتہ سےپیوستہ)

تیسرا، قرض دہندہ کی قسم کے لحاظ سے قرض کی تشکیل اہم ہے۔ پاکستان کے کل بیرونی قرضے اور واجبات مارچ 2022تک 130بلین امریکی ڈالرتھے ۔ان میں سے پبلک قرض 109 بلین ڈالر جب کہ نجی قرض 21بلین ڈالر ہے۔ 102بلین ڈالر کے سرکاری قرضے اور واجبات حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہیں اور ان کی ادائیگی بجٹ کے ذریعے کی جاتی ہے۔7بلین ڈالر کا عوامی طور پر گارنٹی شدہ قرضہ ریاستی ملکیتی اداروں کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ اسے انہی کی آمدنی سے ادا کیا جاتا ہے۔ نجی شعبے کا قرض نجی شعبے کے قرض لینے والوں کی ذمہ داری ہے لیکن اسٹیٹ بینک ادائیگیوں کے لئے زرمبادلہ کا احاطہ کرتا ہے۔ہمیںادائیگی کے توازن اور وفاقی حکومت کے بجٹ کے مضمرات کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔

چوتھا، سالوینسی انڈیکیٹرز طویل اور درمیانی مدت کے قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ لیکویڈیٹی اشارے بنیادی طور پر قلیل مدتی (1سال سے کم) اور اس سال کے دوران واجب الادا ہونے والی میچورٹیز سے متعلق ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں طویل اور درمیانی مدت کے قرضے کل عوامی بیرونی قرضوں کا 89فیصد بنتے ہیں۔ تبادلوں، مرکزی بینکوں کے ذخائر، نیا پاکستان سرٹیفکیٹس، پورٹ فولیوز کی سرمایہ کاری اور قلیل مدتی قرض کے حصے کے طور پر ختم ہونے والی میچورٹیز کو شامل کرکے اور بھی زیادہ محتاط نظریہ رکھتے ہوئے، قلیل مدتی قرض کے کل تناسب کے ساتھ کل رقم 11.2 بلین ڈالر بنتی ہے۔ یہ تقریباً گیارہ فیصد ہے ، جو کچھ کم پریشان کن نہیں ۔طویل اور درمیانی مدت کے سرکاری قرضوں کی تشکیل بھی سرکاری قرض دہندگان کے حق میں ہے ۔کثیر ملکی ادارے بشمول آئی ایم ایف (37فیصد)، دو طرفہ حکومتیں (32فیصد) یعنی طویل مدتی قرض کا دو تہائی فیصد ہیں ۔ صرف ایک تہائی قرض سکوک ، بانڈز اور کمرشل بینکوں سے لیا گیا ہے ۔ کثیر ملکی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضے رعایتی ہیں یا 20-25 سال کی میچورٹی، 5سال کی رعایتی مدت اور مارکیٹ کی شرح سود سے کم ہیں۔ سری لنکا کا 50 فیصد قرضہ بین الاقوامی بانڈز کی شکل میں تھا۔

اب ہم لیکویڈیٹی بحران کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکوڈیٹی کا دبائو موجود ہے کیونکہ بہت سے ممالک بھی آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے منتظر ہیں۔ حکومت نے سعودی عرب اور قطر سے اضافی موخر تیل کی ادائیگی اور آر ایل این جی ادائیگی کی سہولیات بھی حاصل کی ہیں، اور اداروں کے کچھ حصص حکومت کو حکومت کی بنیاد پر فروخت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی ادائیگی اور فنانسنگ کے بعد زرمبادلہ کی سطح میں یقیناً بلندی دیکھنے میں آئیگی۔ بین الاقوامی منڈیوں میں اجناس کی قیمتوں میں کمی آرہی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 2022-23کیلئے پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات 34 بلین ڈالر ہوں گی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق یہ رقم محفوظ کرلی گئی ہے۔ 16.4بلین ڈالر کثیرالجہتی اداروں اور سعودی تیل کی سہولت کے ذریعے تقسیم کئےجائیں گے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے 9 بلین ڈالر کی رقم خرچ کی جائے گی۔ آئی ایم ایف باقی قسطوں کے طور پر 4بلین ڈالر جاری کرے گا۔ ایف ڈی آئی، پورٹ فولیو سرمایہ کاری کے بہاؤ سے 3.5بلین ڈالر آنے کی توقع ہے۔ بانڈز اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹ بقایا رقم کا انتظام کریں گے ۔

مالی سال 2022کے لئے کمزوریوں کی قدر کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے حصول کے لئےسرکاری گارنٹی شدہ دونوں قرضوں کی ذمہ داریاں اور نجی قرض اور اشیا اور خدمات کی برآمدات کی ذمہ داریوں میں مالی سال 2021کے مقابلے میں بہتری آئی ہے ۔ مندرجہ بالا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ مارچ 2022سے سیاسی کشیدگی اور غیر یقینی صورت حال نے غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ میں غیر معمولی بھونچال پیدا کیا جس نے عارضی لیکویڈیٹی بحران پیدا کر دیا۔ اس منفی صورتحال کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوف و ہراس کے کرنسی اور ایکویٹی مارکیٹ، بین الاقوامی تجارتی لین دین اور معیشت کے حقیقی شعبوں پر اثرات مرتب ہوئے۔ بین الاقوامی منظر نامے پر سری لنکا اور دیگر ابھرتے ہوئے ممالک کے متعدی اثرات کے ساتھ ساتھ قرض کی پریشانی میں امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ، فیڈ ریٹ میں اضافہ اور ابھرتی ہوئی منڈیوں سے محفوظ ٹھکانوں کی طرف سرمائے کے بہاؤ کی واپسی، چین میں سپلائی چین میں خلل نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا ۔آئی ایم ایف کی قسطوں کے اجراسے کثیرالجہتی اداروں اور سرکاری دوطرفہ قرض دہندگان کی جانب سے دیگر ادائیگیوں کے توازن میں بہتری آئے گی۔ اس سے لیکویڈیٹی کی رکاوٹوں کو کم کرنا چاہئے جن کا ملک کو سامنا ہے۔ ہم مندرجہ بالا تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ہمیں (1) سیاسی درجہ حرارت کو نیچے رکھنا ہے اور غیر یقینی صورت حال سے بچنا ہے، (2) قرض دہندگان کے ساتھ طے شدہ ایڈجسٹمنٹ کے راستے پر چلنا اور (3) توانائی، ٹیکس، ایس او ای میں کچھ مشکل ساختی اصلاحات کا آغاز کرنا ہوگا۔زرعی پیداوار، برآمدات کو فروغ دینا ہوگاتاکہ ہمیں دوسرےملکوں پرانحصار نہ کرنا پڑے۔