تحریری طلاق

August 19, 2022

تفہیم المسائل

سوال:میں نے 26 جون 2022ء کو بیوی سے جھگڑے کے بعد فیصلہ کیا کہ بیوی کو ڈرانے کے لیے طلاق کے کاغذات بنواتا ہوں اور ایک کاتب سے تین طلاقیں لکھوائیں ، کاتب نے طلاق نامہ بنانے کے بعد مجھ سے کہا: دستخط کردو، میں نے بغیر پڑھے دستخط کردیے، شام کو اپنے دوستوں سے یہ کہہ کر دستخط کروائے کہ سسرال والوں کو ڈرانا ہے۔ طلاق نامہ میں نے الماری میں رکھ دیا کہ سسرال والوں سے کوئی بات ہوگی تو ان کو ڈرا کر دھمکاؤں گا، اگر انہوں نے میری نجی زندگی میں مداخلت کی تو کاغذات تیار ہیں، اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟ ( ایک سائل، کراچی)

جواب: تحریری طلاق نامہ سے جو شوہر نے خود لکھا یا کسی سے لکھوایا ہو، طلاق واقع ہوجاتی ہے، علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’اور اگر مُروّجہ طریقے کے مطابق طلاق لکھی ہو تو طلاق واقع ہوجائے گی ،خواہ طلاق واقع کرنے کی نیت ہو یا نہ ہو ، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد1، ص:378)‘‘۔

علامہ زین الدین بن نجیم حنفی لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ اگر شوہر نے بیوی کا نام لکھ کر اسے تحریری طلاق نامہ تحریر کیا (یعنی یوں کہ :میں نے اپنی بیوی فلاں بنت فلاں کو طلاق دی یا یہ فلاں بنت فلاں ! میں نے تمہیں طلاق دی) اور یہ بات اُس کے اقرار سے یا گواہوں سے ثابت ہوگئی، تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے اس نے اپنی بیوی کو براہِ راست مخاطب کرکے طلاق دی ہو، اگر وہ کہے : میری نیت طلاق کی نہیں تھی، تو قضاء ً اور دیانۃً اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور ’’المنتقیٰ ‘‘ میں ہے : دیانۃً اس کی بات مانی جائے گی ، (الاشباہ والنظائر ،ص: 334 )‘‘۔

موجودہ دور میں کسی بھی تحریر پر، چاہے لکھنے والے کے اپنے ہاتھ سے ہو، جب تک خود لکھنے یا لکھانے والے کے دستخط یا نشانِ انگوٹھا یا مُہر نہ ہو، معتبر نہیں مانی جاتی اور ہمارے نظامِ عدل وقانون میں اُس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، نہ اُس سے کوئی چیز ثابت کی جاسکتی ہے اور نہ نفی کی جاسکتی ہے۔ صورتِ مسئولہ میں تین طلاقوں سے آپ دونوں ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں اور اب رجوع کی قطعاً کوئی گنجائش باقی نہیں ہے ۔ (جاری ہے)