غصب شدہ زمین کو مسجد کے لیے وقف کرنے کا حکم

April 19, 2024

تفہیم المسائل

سوال: ایک شخص اپنی سیاسی طاقت کے زور پر پلاٹ کے مالک کو کہے کہ ہم سے پیسے لے لو اور پلاٹ ہمیں دے دو یا پلاٹ پر قبضہ کرکے اسے دوسرا پلاٹ دینے کی آفر کرے ، پلاٹ مالک کے انکار پر قابض یہ کہتا ہے کہ میں نے یہ پلاٹ مسجد کو دے دیا ہے ، کیا ایسے کرنے سے وہ وقف ہوجائے گا؟(محمد اظہر، ضلع بہاولپور )

جواب:کسی کی زمین ، پلاٹ اُس کی رضامندی کے بغیر جبراً نہیں خریدی جاسکتی اور اُس کی اجازت کے بغیر زمین سے زمین کا تبادلہ بھی نہیں کیا جاسکتا ، نیز کسی کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرنا شرعاً ناجائز وحرام ہے، احادیثِ مبارکہ میں ہے:

(۱)ترجمہ :’’جو شخص کسی کی زمین کا ایک با لشت ٹکڑا بھی ظلما ً(یعنی نا حق) لے گا ،تو اُسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (سز ا کے طو رپر) سا ت زمینوں کا طوق پہنا ئے گا، (صحیح مسلم: 4055) ‘‘۔

(۲)ترجمہ:’’ خبردار ! تم لوگ ظلم نہ کرنا ،کسی کا مال بغیر اس کی خوشی کے حلال نہیں ،(مسند احمد بن حنبل:20695)‘‘۔ مقبوضہ زمین کی فروخت سے جو رقم بصورت ثمن حاصل ہوگی ، وہ بھی حرام ہے ، قرآن کریم میں ہے: ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ، سوائے اس کے کہ تمہاری باہمی رضامندی سے تجارت ہو،(سورۃالنساء : 29) ‘‘ ۔

کسی شخص کی ملکیتی زمین پر قبضہ کرکے اُس زمین کو کسی بھی رفاہی، فلاحی یا دینی کام کے لیے استعمال نہیں کیاجاسکتا۔

(۱)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ترجمہ:’’ بغیر طہارت نماز قبول نہیں اور مالِ حرام سے صدقہ قبول نہیں،(سُنن ترمذی:1)‘‘۔

(۲)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ترجمہ:’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُسے صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا،(مسند احمد بن حنبل : 3672)‘‘۔

مالِ حرام پر ثواب کی امید کفر ہے ،جامع الفصولین میں ہے : ترجمہ:’’اگر کسی نے مال حرام میں سے ثواب کی نیت سے فقیر پرکچھ صدقہ کیا ،تو کافر ہوگیا اور اگر فقیر کو معلوم ہو کہ یہ مال حرام ہے اس کے باوجود اس نے دینے والے کو دعا دی اور دینے والے نے اس پرآمین کہی تو دونوں کافر ہوگئے،(جلد:2،ص:170)‘‘۔

ہمارے بعض فقہائے کرام نے غصب شدہ زمین پر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے، علامہ طحطاوی مُتوفّٰی 1231ھ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کسی شخص کی زمین پر اُس کی مرضی کے بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہے ، (حاشیہ طحطاوی علیٰ مراقی الفلاح ،جلد1،ص:484)‘‘۔

علامہ نظام الدین رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’غصب شدہ زمین پر نماز جائز تو ہے (یعنی پڑھنے سے ادا ہوجائے گی)، لیکن اِس ظلم کے سبب اسے سزا دی جائے گی، جو کچھ اُس بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ہے ،(اگر اللہ تعالیٰ چاہے تواُسے نمازکا ) ثواب دے گااور جو کچھ اُس کے اور دوسرے بندوں کے درمیان ہے ، اس پر سزا دی جائے گی ،جیساکہ ’’مختار الفتاویٰ ‘‘ میں ہے، (فتاویٰ عالمگیری ، جلد1،ص:109،مکتبۂ رشیدیہ ،کوئٹہ)‘‘۔ لیکن مغصوبہ زمین پر نماز کے ادا ہوجانے کا معنیٰ یہ ہے :’’ فرض ساقط ہوجائے گا ‘‘، اس پر اجر کا مدار اﷲ تعالیٰ کے کرم پر موقوف ہے۔

مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ سے سوال کیاگیا :’’ کسی کی زمین میں مسجد تعمیر کی گئی ،آیا وہ مالک زمین اس مسجد کو منہدم کرسکتا ہے یا نہیں؟‘‘۔ آپ جواب میں لکھتے ہیں: ’’ کسی شخص کا اپنی شخصی ملکیت میں مسجد بنانا جائز ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص بنالے تو وہ مسجد نہ ہوگی اس کے توڑ دینے کا مالک کو اختیار ہے، اس لیے کہ مسجد وقف ہے اور وقف مالک ہی کرسکتا ہے، علامہ ابن عابدین شامی مُتوفّٰی 1252ھ نے شامی میں لکھا: ترجمہ: ’’البحر الرائق میں ذکرکیا: ’’ الحاوی للفتاویٰ ‘‘ کے کلام کا حاصل یہ ہے: (وقف کے صحیح ہونے کی) شرط یہ ہے کہ مسجد کی زمین بانیِ مسجد کی ملک میں ہو، مالک کی اجازت کے بغیر کسی کی زمین پر قبضہ کرنا غصب کرنا ہے اورفقہ کی تمام کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ غصب کی ہوئی زمین پر نماز مکروہ ہے، لہٰذا ایسی مسجد جو مالک کی اجازت کے بغیر بنائی گئی ہو ،اس میں تو نماز پڑھنا ہی مکروہ ہے ،(وقارالفتاویٰ ،جلد دوم، ص:305)‘‘

مذکورہ صورت میں آپ کو شرعی اور قانونی اختیار حاصل ہے کہ اپنے پلاٹ کے حصول کے لیے قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔ کسی کی زمین کو ظلماً غصب کرکے اور اس پر قبضہ کرکے اس کا مسجد بنانا شرعاً ناجائز ہے اور اس پر نماز پڑھنا مکروہ ہے( واللہ اعلم بالصواب )