اسلام میں ’’توکل‘‘ کی حقیقت اور اُس کے بنیادی تقاضے

April 19, 2024

رضیہ سلطانہ

توکل کی تعریف سے پہلے توکل کے مروجہ غلط مفاہیم کو واضح کرنا ضروری ہے۔ عموماً توکل سے مراد بے عملی، اسباب سے اعراض اور عدم تدبیر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک مغالطہ اور فریب ہے جو اسلام کے نام پر عام کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قرآنِ حکیم میں توکل کا مفہوم عمدہ تدبیر، دستیاب وسائل کی مناسب منصوبہ سازی، وقت اور حالات کا درست تجزیہ کرنااور زمینی حقائق کا بروقت ادراک اور فوری اقدام، یہ توکل کے عناصرِ ترکیبی ہیں۔

توکل دراصل آفاتِ ارضی و سماوی سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ملکیت و مشیت کے غیبی خزائن و قرائن پر بھروسہ کرنے کا نام ہے۔قرآن حکیم کے مطابق نماز کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔’’اور سجدہ کرو اور (اپنے ربّ کا) قرب حاصل کرو۔‘‘ (سورۃ العلق)

لیکن حالت نماز جو قربِ الہٰی کا ذریعہ ہے، اس میں بھی زبانی کلامی توکل کی بجائے اللہ رب العزت پر یقینی اور قلبی توکل کے باوجود ہتھیار اُٹھانے کا حکم سورۃ النساء آیت 102میں دیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔’’ اور اے نبی ! جب تم مسلمانوں کے درمیان ہو اور (حالتِ جنگ میں) انہیں نماز پڑھانے کھڑے ہو تو چاہیے کہ ان میں سے ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور اسلحہ لیے رہے‘‘ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ توکل بے دست و پائی کا نام نہیں بلکہ اچھی تدبیر کے ساتھ بہترین اسباب اختیار کرنا اور پھر اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کا نام ہے۔ توکل ایک ایساطرز عمل ہے جو عزم و استقلال اور پوری استدعا کے ساتھ شریعت کے مطابق اپنا کام کر کے نتائج خداکی مشیت کے سپرد کرنا یعنی عالمِ خلق کے کام کو عالمِ امر (روحانی دنیا)کے فیصلوں سے مربوط کیا جاتا ہے۔ یہی خود اعتمادی ہے۔

توکل دراصل انسان کی ایسی ہی سعی کاملہ کی عنداللہ قبولیت کا نام ہےاور اللہ ربِ کریم کی سنت عادلہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی محنت کرنے والے کی محنت کو دنیا اور آخرت میں ضائع نہیں کرتا ،اس کی حکمت کی وجہ سے نتائج کچھ مؤخر ہوسکتے ہیں، لیکن ضائع نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔’’ جواب میں ان کے رب نے فرمایا ”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔

لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے، ان کے سب قصور میں معاف کردوں گا اور انھیں ایسے باغوں میں داخل کر وں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہتر ین جزا اللہ ہی کے پاس ہے“۔(سورۂ آل عمران:195)

قرآن حکیم میں کوشش کے لیے تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ 1۔سعی، تیز چلنا، کسی اچھے برے کام کے لیے سرگرم عمل ہونا، ليس للانسان الا ما سعیٰ۔(سورۂ والنحم) 2۔جہد، کسی کام کی تکمیل میں امکانی کوشش کرنا۔ (سورۃ العنکبوت ) 3۔کدح، تکلیف اور دکھ اٹھا اٹھا کر کسی کام کی کوشش کرتے رہنا۔(سورۂ انشقاق )

توکل کیونکہ انسانی کوشش کو ربانی مشیت کے تابع کرتا ہے اس لئے قرآنِ حکیم میں کوشش کے لئے مختلف الفاظ استعمال ہوئے تاکہ مختلف اسالیب سے توکل کے ہر پہلو کو انسان کے ذہن نشین کیا جائے اور کوشش اور توکل کے ربط اور اس کی حکمت ربانی کو انسان پر واضح کیا جائے۔ راہِ توکل میں انسان کی طرف سے بہترین کوشش اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے عمدہ نتائج کا یہ قانون قرآنِ حکیم میں بہت سے مقامات پر مختلف اسالیب اور مختلف پس منظر میں بیان ہوا ہے۔

انسان کی سعی کاملہ کے بارے میں فرمایا ، ’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے، اور یقیناً اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘ ۔(سورۃ العنکبوت:69، ) یہی بات سورۃ النسا میں فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ باعمل لوگوں کو بے عمل لوگوں پر فوقیت دیتا ہے کیونکہ اسی سورۂ مبارکہ کے مطابق بے عملی کم ہمتی اور ترک سعی و جہد دنیا میں محرومی و مسکنت اور آخرت میں باعثِ جہنم ہے۔

یہ توکل صادقین کی معیت و صحبت سے حاصل ہوتا ہے جو دین فروشی اور حق پوشی سے پاک ہوتے ہیں جہد کامل کی ترغیب و تاکید کرتے ہیں ایسی صحبت انسان کے لئے نعمت کبریٰ اور منت عظمیٰ سے کم نہیں۔ شخصیت سازی اور حصولِ توکل کے لئے یہ اکسیر بے نظیر ہے۔ ان کی صحبت میں حسی اور مادی خوراک کے ساتھ ساتھ روحانی و عرفانی غذا بھی ملتی ہے۔ اسی لئے ان کی صحبت کو قرآن حکیم نے لازم قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو‘‘۔ (سورۃ التوبہ:119)

قرآن حکیم نے دکھ اور مصیبت کی حالت میں حکم یہ دیا ہے کہ نماز اور صبر سے سہارا لو، بے شک اللہ صبر کرنے والے کے ساتھ ہے (سورۃ البقرہ:153)۔ صبر کا حصول انسانی کوشش اور رضائے الہیٰ سے ہی ممکن ہےاور صبر ہمیشہ عزم کو مضبوط کرتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’ اور جب (کسی کام کا) عزم مصمم کرلو تو خدا پر بھروسا رکھو۔ بےشک خدا بھروسا رکھنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران:159)

قرآن ِ حکیم نے توکل کو مکارم اخلاق و محاسن اعمال کی فہرست میں شامل کیا ہے اور ترک توکل پر گرفت کی ہے۔ انسان کی ایک گمراہی یہ بھی ہے کہ وہ اپنی تدبیر کی غلطی اور عمل کی کوتاہی سے سامنے آنے والے نتائج پر مایوسی اور بد گمانی میں مبتلا ہوجاتا ہے، ان ذہنی نفسیاتی اور قلبی امراض کا علاج توکل میں ہی ہے۔ یہاں تک کہ توکل کو ایمان کی پہچان اور شان قرار دیا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت23میں فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو اللہ پر ہی بھروسہ کرنا۔ قرآن حکیم کی رو سے توکل کا ایک بنیادی پہلو ترغیب انفاقِ مال راہِ خداوندِ ذوالجلال ہے۔

سورۃ الدھر آیت 8 پارہ 29میں فرمایا گیا ’’اور باوجود یہ کہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں‘‘۔ ایسے ہی متوکلین کی تحسین سورۃ الحشر میں کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔’’ اور اپنی ذات پر دُوسروں کو تر جیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘ یعنی توکل تدبیر اور جدو جہد کا نام نہیں، بلکہ حکم ربی اور سنت نبویﷺ کے مطابق مادی وسائل اختیار کرنے کا نام ہے ،کیونکہ مادی اسباب اللہ تعالیٰ کے مادی قوانین کے مطابق کام کرتے ہیں اور توکل دراصل شریعت کے مطابق کوشش کرتے ہوئے مشیت الہٰی کے فیصلوں پر مطمئن اور راضی رہنے کا نام ہے۔ کیونکہ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہمیشہ انسانی خواہشات سے بہتر ہوتے ہیں۔

قرآن حکیم کی طرح سیرت رسول ﷺ سے بھی ہمیں توکل کی اہمیت اور فضیلت کا علم ہوتا ہے۔ آپﷺ کے پاس ایک دیہاتی آیا اور اپنا اونٹ باندھے بغیر مسجد میں آبیٹھا اور کہا کہ میں اپنی سواری کو اللہ کے بھروسے پر چھوڑ آیا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔ آپﷺ نہ صرف دوسروں کو توکل کا صحیح تصور اور حقیقی علم عطا کرتے ،بلکہ آپ خود بھی اللہ رب العزت پر ہمیشہ بھروسہ کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ رب العزت نے آپ کا نام المتوکل رکھ دیا یعنی بھروسہ کرنے والا۔

بخاری شریف کی ایک طویل حدیث نمبر 2125 کے مطابق ایک حدیث قدسی نقل کی گئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ حضورﷺکو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ’تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔ میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ہے۔ تم نہ بدخو ہو، نہ سخت دل‘‘۔ مختصر یہ کہ توکل ایمان کی نشانی رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے،توکل انسانی وقار اور عزم و استعداد کا ثبوت ہے یہ وہ عمل ہے جو انسان کو بدگمانی ،مایوسی اور ترک عمل سے بچاتا ہے، محنت عمدہ تدبیر سازی ہمت و حوصلہ کا درس دیتا ہے۔ زندگی میں ملنے والے بہترین موقعوں پر بہترین کام کرنے کی رغبت دلواتا ہے۔

ہمارے سماج میں بے چینی ،بدگمانی، بے یقینی افراتفری مفاد پرستی توکل پر عمل کرکے ختم ہوسکتی ہے۔ آج کے اس مادی دور میں حقیقی اسلامی تصورِ توکل کو سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بروئے کار لانے کی از حد ضرورت ہے۔ عمل مقبول اور سعی مشکور اللہ تعالیٰ کی طرف سے توکل کا انعام و انجام ہے۔

اسلام کا تصورِ توکل اتنا پرحکمت معتدل اور متوازن ہے کہ جس سے انسان کو شعوری طور پر احساس ہوجاتا ہے کہ زندگی میں جہاں مشکلات اور مسائل ہیں وہاں نصرتِ الہیٰ کو حاصل کرنے والے نیک اعمال، بہترین انسانی صلاحیتوں کا استعمال، تجرباتِ حیات کا درس اور معاملات کی بروقت اور بہترین منصوبہ سازی سے اگر یہ مسائل ختم نہیں ہوسکتے تو کم ضرور ہوسکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انسانی کوشش کو قبول کرتا ہے ،کیونکہ اس کا وعدہ ہے ’’ اور جو آخرت کا خواہش مند ہو اور اس کے لیے سعی کرے ،جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی‘‘ (سورۂ بنی اسرائیل) اور یہ وعدہ دنیا کی زندگی کے بارے میں بھی ہے ،جیسا کہ ارشاد فرمایا ’’ جو شخص بھی نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اُسے ہم دُنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گےاور (آخرت میں)ایسے لوگوں کو اُن کے اجر اُن کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے‘‘ (سورۃ النحل:97)۔

توکل اللہ کے فیصلے پر راضی رہنے کا بھی نام ہے ترمذی شریف کی حدیث نمبر 230 میں فرمایا ’’اللہ کے فیصلوں کو قبول کرنا سعادت ہے ‘‘ اور یہی توکل کی روح ہے۔ اسی لئے قرانِ حکیم میں دس سے زیادہ مقام پر توکل کاحکم توکل کےبہترین انجام کا وعدہ کیا گیا ہے۔