باجماعت نماز میں صفوں کا اہتمام عظمت و اہمیت اور اُس کے آداب

September 09, 2022

مولانا کامران اجمل

اسلام نے مسلمانوں کو منظم اور یکجا رہنے کی بڑی ترغیب دی ہے ، ان کے آپس کے جوڑ کو اس قدر لازمی قرار دیا ہے کہ باہمی تعلق تو اپنی جگہ صرف دل میں کینہ وبغض رکھنے کو بھی سختی سے منع فرمایا اور یہ تک فرما دیا کہ یہ اعمال کو ایسے ختم کردیتا ہے جیسے استرا سر کے بالوں کو مکمل طور پر ختم کردیتا ہے ،اور اس یکسانیت اور یکجائیت کے لیے شریعت مطہرہ نے احکام بھی اس انداز سے دیئے ہیں، جن سے ایک مسلمان کی اجتماعی زندگی پر فرق نہ پڑے ،ایسے اعمال کرنے کا فرمایا جو دیکھنے میں تو بہت چھوٹے اعمال ہیں، لیکن اپنے اجر اور مقصد کے اعتبار سے بہت ہی بڑے ہیں۔

انہی اعمال میں سے ایک عمل مسجد میں صفوں کا خیال رکھناہے،صفوں کے درست کرنے کی پابندی انفرادی طور پر ہر شخص اگر دیکھے تو بہت ہی مختصر عمل ہے ، لیکن حقیقت کے اعتبار سے اس کے بہت سے فوائد اور اس کے چھوڑنے کے بہت سے نقصانات ہیں، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے، صفوں کی درستی کتنا اہم اور لازمی معاملہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی وہ چند احادیث جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کتنا اہتمام فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ ارشاد فرمایا :

۱۔تم اس طرح صفیں کیوں نہیں بناتے، جس طرح فرشتے بناتے ہیں ؟ ہم نے پوچھا یا رسول اللہﷺ ! فرشتے کیسے صف بناتے ہیں ؟ فرمایا : وہ پہلی صفوں کو پر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوتے ہیں ۔(صحیح مسلم )۲۔حضرت براء بن عازب ؓفرماتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ صف میں ایک طرف سے داخل ہوتے اور دوسری جانب تک جاتے ، ہمارے سینوں اور کندھوں کو ہاتھوں سے درست فرماتے ‘‘۔(مسند احمد )۳۔حضرت نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں :’’رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو اس طرح درست فرماتے تھے ،گویا اس کے ذریعے تیروں کو درست فرما رہے ہوں ‘‘۔(صحیح مسلم ) ۴۔ انہی سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’تم اپنی صفوں کو لازمی طور پر درست کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں میں مخالفت ڈال دے گا ۔۵۔حضرت ابو مسعود انصاری ؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمارے کندھوں پر ہاتھوں کو برابر کرتے اور فرماتے کہ اپنی صفوں کو درست کر لو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں اختلاف پیدا کر دے گا‘‘۔(صحیح مسلم )۶۔حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم نماز باجماعت پڑھو تو صفوں کو درست کر لیا کرو ‘‘۔(صحیح مسلم )۷۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم نماز میں صفوں کو درست رکھو ،اس لیے کہ صف کو سیدھا رکھنا نماز کے حسن میں سے ہے۔‘‘ (صحیح بخاری )۸۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم صفوں میں سیدھے ہوجاؤ اور خوب مل جاؤ‘‘۔(مصنف ابن ابی شیبہ )۹۔حضرت ثوبانؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم سیدھے اور قریب قریب ہو جاؤ‘‘۔(مسند احمد) ۱۰۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صف میں ایک صحابیؓ کو دیکھا کہ ان کا سینہ باہر تھا، دیگر لوگوں کی بہ نسبت تو آپ علیہ السلام نے اس پر ڈانٹا اور صف درست کرنے کا حکم فرمایا ۔ (صحیح مسلم)

ان روایات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےباجماعت نماز میں صفوں کا کتنا اہتمام فرمایا ہے ، اور اسی اہتمام کی بنیاد پر آپ علیہ السلام نے باقاعدہ صف بندی کا طریقہ بھی بتایا کہ کس عمر کے لوگوں کو کس صف میں کھڑا ہونا چاہیے؟ حضرات فقہائےکرام نے اسے اہتمام سے ذکر فرمایا ہے کہ اگر کہیں جماعت میں صرف مرد ہوں ، یعنی بچے وغیرہ نہ ہو ں تو اس کی ترتیب یہ ہوگی کہ اس میں صف کو درمیان سے بنایا جائے اور پھر دونوں اطراف میں آکر شامل ہوا جائے ،اس ترتیب سے کہ اس میں دوطرف کا توازن برقرار رہے ، ایسا نہ ہو کہ ایک طرف کی صف مکمل ہوجائے اور دوسری طرف سے صف اسی طرح خالی رہے ، اور جب پہلی صف بھر جائے تو اس کے بعد دوسری صف بنائی جائے ، صرف ایک طرف کی تمام صفیں بھر دینا یا اگلی صف خالی ہونے کی صورت میں پچھلی صف میں نماز پڑھنے کو ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے ، اس لیے اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ ہم صفوں کو اسی انداز میں بنائیں ، تاکہ اہتمام نماز کا پتا چل سکے ۔ اگر کوئی جگہ ایسی ہے کہ جہاں مرد عورتیں بچے اور خنثیٰ لوگ بھی موجود ہوں تو حضرات فقہاء نے اسے بھی بیان فرمایا کہ ایسی صورت میں پہلے مردوں کی صفیں بنیں گی ، پھر بچوں کی ، پھر خنثیٰ کی ، پھر عورتوں کی صفیں بنیں گی۔

شریعت مطہرہ کی طرف سے صفوں کے معاملے میں اس قدر حساسیت کے باوجود ہم صفوں کے معاملے میں سستی اور بعض نادانستہ خطاؤں میں مبتلا ہیں، لیکن ہمیں اس کا اندازہ نہیں ہے کہ ہم صفوں کی اس ترتیب کی مخالفت کرکے درحقیقت اسلام کے نظام اجتماعیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ، وہ غلطیاں جو ہم صفوں کے معاملے میں کرتے ہیں وہ دو طرح کی ہیں :

۱۔ وہ غلطیاں جو ہم صفوں کے معاملے میں شریعت کے مزاج کو سمجھے بغیر ہی سختی کی صورت میں کرتے ہیں ۔۲۔ وہ غلطیاں جو ہم شریعت پر عمل پیرا ہونے کے لیے کرتے ہیں ،لیکن انجانے میں ہم شریعت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ ذیل میں دونوں طرح کی خرابیوں کی طرف مختصراً اشارہ کیا جاتا ہے ،شاید یہ ہماری کوتاہیوں کے سمجھنے اور مساجد میں نمازکے دوران صفوں کے آداب اور اسلامی تعلیمات پر عمل کا باعث بن سکے۔

۱۔کچھ لوگ صفوں کے معاملے میں اس قدر غفلت اور بے احتیاطی کا معاملہ کرتے ہیں کہ بچوں کوصفوں میں آنے ہی نہیں دیتے ،بسا اوقات بہت سمجھ دار بچے بھی ہوتے ہیں، جو مسجد میں شور شرابہ تو درکنار صفوں میں اس قدر اہتمام اور محبت سے بیٹھے ہوتے ہیں کہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آٹھ دس سال کا بچہ ہے یا پھر کوئی ادھیڑ عمر سلجھا ہوا شخص ، لیکن چونکہ ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کی صفیں پیچھے بنتی ہیں تو ہم ان بچوں پر اس بھی اس قدر سختی کرجاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ ، اس سے بڑھ کر یہ کہ ہم بچوں کو مسجدوں میں آنے سے ہی روکتے ہیں، اگر معمولی شعور رکھنے والا بچہ مسجد میں آبھی جائے تو اسے اس قدر ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ مسجد آنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہے، جس کی وجہ سے بلوغت کے بعد بھی وہ نمازوں سے دور ہوجاتا ہے، اس کا گناہ اسے مسجد سے بچپن میں دور کرنے والے کے سر کسی نہ کسی درجے میں ضرور ہوگا ،کیونکہ وہی اسے بچپن میں مسجد اور مسجد والوں سے بد ظن کرنے کا باعث بنا ہے، جس پر کسی طرح چھوٹ نہیں ہوگی، اور اس طرح کے نجانے کتنے لوگ ہوں گے جنہیں ہم نے اپنے اس رویے کی وجہ سے مسجد اور اپنے رب سے دور کردیا ہوگا ، لیکن ہمیں خبر ہی نہیں ہے،کیونکہ کوئی انسان اپنی وجہ سے دین سے دور جانے والے حضرات کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا، البتہ اپنی وجہ سے دین کی طرف آنے والے کا حساب کتاب ہر ایک کو یاد بھی ہوتا ہے اور لوگوں کے سامنے تذکرہ بھی کرتا ہے کہ فلاں شخص میری وجہ سے نمازی بنا، فلاں شخص نے میری وجہ سے داڑھی رکھی ، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ فلاں شخص میری وجہ سے مسجد سے دور ہوا ، فلاں میری ڈانٹ ، فلاں میری سخت گوئی وغیرہ سے دور ہو ا، اس لیے اس بات کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم مسجد میں آنے والے بچوں کو بجائے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے انہیں پیار سے سمجھائیں ،انہیں باجماعت نماز میں صف بندی کی ترتیب سکھائیں ،تاکہ یہی بچے کل اپنے رب اور دین سے بے زار نہ ہوجائیں اور ذمہ دار ہم نہ ٹہر جائیں ۔

بعض حضرات اپنی نا سمجھی کی وجہ سے ایسے حضرات پر بھی صف کے معاملے میں سختی کرجاتے ہیں، جنہیں خود شریعت مطہرہ نے چھو ٹ دی ہو ، مثلاً : بیمار ہیں اور وہ پچھلی صف میں اس لیے کھڑے ہیں کہ اگلی صفوں میں کرسی پر بیٹھنے کو اچھا نہیں سمجھتے اور انہیں معلوم بھی ہے کہ اگلی صفیں پر ہوجائیں گی ، اور سب کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والوں کے درمیان میں بیٹھ کر پڑھنے والا فرد گویا کسی معمولی درجے میں صف بندی میں مخل ہے کہ لوگ کندھوں سے کندھے ملائے صف بندی کا اظہار کرتے ہیں اور درمیان میں بیٹھا ہوا شخص آجائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صف ٹوٹ گئی ہو ، اس احساس کی وجہ سے وہ بجائے پہلی یا اگلی صفوں میں بیٹھ کر پڑھنے کے پچھلی صفوں میں بیٹھ کر نمازپڑھنے کو ترجیح دیتے ہیں ، ایسی صورت میں شریعت کی طرف سے انہیں اجازت بھی ہے ،خصوصاً جب اگلی صفیں پر ہونے کا غالب گمان بھی ہو ، لیکن بعض حضرات ان پر اس قدر سختی کر جاتے ہیں ،کیونکہ وہ صف بندی کو لازمی تو سمجھتے ہیں ،لیکن صف بندی کا صحیح مطلب نہیں جانتے ، اس لیے اس میں بھی اہتمام لازمی ہے کہ کسی کو ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے مسجد میں آکر اپنی عبادت میں مصروف ہونا چاہیے اور اس قسم کی کسی بھی چیز میں خود دخل اندازی کے بجائے امام مسجد پر اس کام کو چھوڑ دیا جائے ،تاکہ وہ اسے شریعت کی رو سے سلجھاسکیں اور مسجد میں اجتماعیت کی فضا قائم رہے جو کہ صفوں کی درستی کے مقاصد میں سے ہے۔

۲۔وہ غلطیاں جو ہم مسجد میں صفوں کے حوالے سے کرتے ہیں ، اور انہیں غلط نہیں سمجھتے ،وہ حسب ذیل ہیں :

(۱) صفوں کو درمیان سے نہ بنانا ، اس کوتاہی میں ہم تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں، اس کی وجہ مختلف ہوتی ہے ، یا تو ہم سمجھتے ہیں کہ شریعت نے اجازت دی ہے اور ہم نماز کہیں بھی پڑھ لیں، جماعت سے نماز ہوجاتی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز یقینا ًہو جاتی ہے، لیکن شریعت کے مزاج کے خلاف ہے، کیونکہ شریعت کی ترغیب یہ ہے کہ اگلی صفوں میں پہنچنے کا اہتمام کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے اس پر بحث کی ہے کہ صف اول میں نماز پڑھنے کی فضلیت تو خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے ،لیکن صف اول میں کون سی جگہ افضل ہے، جس سے یہ انداز ہ لگانا آسان ہے کہ شریعت میں پہلی صفوں میں نماز پڑھنے کی ترغیب ہے، ہم صرف جواز کو دیکھ کر پچھلی صفوں میں کھڑے ہوجاتے ہیں جس کا نقصان یہ ہے کہ ہم شریعت کے اجتماعیت کے نظام میں خلل پیدا کرنے والے بن جاتے ہیں اور ہمیں اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔

(ب) دوسری غلطی ہم سے یہ سرزد ہوجاتی ہے کہ اگلی صفوں میں پہنچنے کے لیے اپنے مسلمان بھائیوں کے کندھوں کو پھلانگتے ہیں ، جو کہ حرام کام ہے ، اگر اگلی صفوں میں واقعی جگہ خالی ہے تو قریب کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس خالی جگہ کو پُر کریں، اگر نہیں تو تھوڑا انتظار کرلینا چاہیے ،تاکہ جب صفیں درست ہوں تو اس وقت آگے بڑھ جائے، اس میں حرج نہیں ہے ، شریعت اس کی کبھی اجازت نہیں دیتی کہ کسی فضلیت والے کام کو کرنے کے لیے کسی حرام کا ارتکاب کیا جائے۔

(ج) تیسری غلطی جو ہم عموماً کرجاتے ہیں ،وہ یہ کہ صفوں کے اہتمام کے بارے میں اس قدر تاکید کے باوجود ہم صفوں کا خیال نہیں کرتے، بلکہ اپنے بچوں کو لے کر اگلی صفوں میں بٹھا دیتے ہیں جو کسی طرح درست نہیں ہے، کیونکہ ہر شخص کو اپنا بچہ پیارا بھی لگتا ہے اور شاید وہ اپنے بچے کو سمجھ دار بھی سمجھتا ہے، اور اس طرح بچوں کو اگلی صفوں میں پہنچا دیتے ہیں ، جس کی وجہ سے بسا اوقات اگلی صفوں میں کھڑے لوگوں کی نماز خراب ہوتی ہے ، بسا اوقات نمازیں ٹوٹ بھی جاتے ہیں ، اس لیے اس بات کا اہتمام لازمی ہے کہ اگر اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں اور ان کی تربیت مقصود ہے تو پھر پچھلی صفوں میں اپنے بچے کو اپنے ساتھ رکھیں ،تاکہ وہ شرارت سے بھی باز آجائے اور صفوں کی ترتیب خراب نہ ہو۔

(د)چوتھی غلطی جو ہم سے کورونا کے بعد بڑھ گئی ہے وہ یہ ہے کہ صفوں میں اتصال (مل مل کر کھڑے ہونے) کا خیال نہیں رکھتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح سے کورونا کے دنوں میں جس طرح الگ الگ کھڑے ہوکر نماز ہوجاتی تھی، اسی طرح اب بھی الرجی وغیرہ بیماریوں سے ڈرنے کی وجہ سے الگ الگ کھڑے ہوسکتے ہیں ، اور بعض اوقات تو یہ جملہ بھی سننے کو مل جاتا ہے کہ الگ الگ کھڑے رہتے ہیں، تا کہ پسینے کی بدبو نہ آئے ، یہ جملہ سراسر غلط ہے، اس لیے کہ کورونا کے دنوں میں بھی جن علماء نے اجازت دی تھی ،وہ ایک عمومی وبا کی وجہ سے دی تھی اپنی نفسانی خواہش کی وجہ سے اجازت نہیں دی تھی، اور کسی سے مل کر کھڑے ہونے کو الرجی یا کسی اور بیماری کا باعث قرار دینا شریعت کے مقصد کو فوت کرنے کی طرح ہے ، جس کی کسی صورت شریعت میں گنجائش نہیں ہے۔

(ھ) ایک اہم بات یہ سمجھنی بھی لازمی ہے کہ جس طرح شریعت میں مل مل کر کھڑے ہونے کی ترغیب ہے، اسی طرح حتیٰ الامکان کندھوں کو کندھوں سے ملا کر کھڑا ہونا بھی شریعت میں مطلوب ہے ،اور جو اس مقصد میں جتنا کم کرتا چلا جائے گا، اس قدر غلطی کا مرتکب ہوگا، اب ہم سے ایک غلطی ہوجاتی ہے کہ اگر ڈاکٹر نے ایک مرتبہ زندگی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی تو ساری زندگی کرسی سے اٹھ کر نماز پڑھنے کی کوشش تک نہیں کرتے، یہ جس طرح نمازوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، اسی طرح یہ صفوں پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوجاتے ہیں ، اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔ یہ چند چیزیں ہیں جو صفوں کے اہتمام اور ہماری بعض کوتاہیوں سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شریعتِ مطہرہ پر عمل کرنے اور اس کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلینﷺ )