ٹرانس جینڈر بل میں جنسی ہراسانی کو جرم بنایا گیا ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ

September 22, 2022

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر بل میں جنسی ہراسانی کو جرم بنایا گیا ہے، ڈس انفارمیشن ایسے پھیلائی گئی جیسے یہ سارا بل ہی غلط ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ ٹرانس جینڈر بل میں خواجہ سراؤں کے ملازمت کے حق کو محفوظ اور علاج معالجے کے معاملے کو تحفظ دیا گیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ ٹرانس جینڈر بل میں خواجہ سراؤں سے بھیک منگوانے کو بھی جرم قرار دیا گیا، ہر قانون جو پاس ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی سقم ہوسکتا ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ٹرانس جینڈر بل میں خواجہ سراؤں کے وراثتی حقوق کا تحفظ کیا گیا، خواجہ سرا بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں، پارلیمنٹ میں ٹرانس جینڈر بل پیش ہونے کے 2 سال بعد کچھ شکایات سامنے آئی ہیں، شکایت میں کہا گیا کہ اس بل کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وزیر قانون نے کہا کہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے ٹرانس جینڈر بل کی ایک شق پر اعتراض اٹھایا ہے، خواجہ سراؤں کو حق دینا ریاست کی ذمے داری ہے، ٹرانس جینڈر بل میں خواجہ سراؤں سے ہونے والے غیر منصفانہ سلوک کو روکا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سال 2018 سے قبل ٹرانس جینڈر قانون نہیں تھا، سپریم کورٹ نے 2013 میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ٹرانس جینڈر بھی ملک کے شہری ہیں، انہیں حقوق دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ٹرانس جینڈر قانون پاس کرنے سے قبل چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل سے رائے لی، سال 2018 کے تحت یہ معاملہ پرائیویٹ ممبر بل کے ذریعے سامنے آیا، اطلاعات تک رسائی ہر ایک کا حق ہے لیکن رائٹ ٹو ڈس انفارمیشن نہیں ہونا چاہیے۔

وزیر قانون نے کہا کہ سینیٹر مشتاق نے شک پر سوال اٹھایا خواجہ سرا کی جنس کی بنیاد میڈیکل رپورٹ سے منسلک کریں، پارلیمان میں بل پاس ہونے کے 2 سال بعد کچھ شکایات سامنے آئیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئین کہتا ہے کسی شخص کے ساتھ اس کی جنس پر امتیازی سلوک نہیں ہوگا، پارلیمنٹ شریعت کے منافی قانون سازی نہیں کر سکتی، خواجہ سراؤں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا ماحول بنانا ہے، خواجہ سراؤں کو اسپتال میں سہولیات نہیں ملتی تھیں، ان کے لیے اسپتالوں میں الگ کمرے بنا دیے گئے ہیں، خواجہ سراؤں کے لیے الگ جیل بھی بنائی گئیں۔