سائبر سیکورٹی کا فیصلہ

October 02, 2022

پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کی نئی آڈیو لیکس کی ڈارک ویب پر بولی 3لاکھ 50ہزار ڈالر (28کروڑ روپے) سے شروع ہوئی اور 13لاکھ ڈالرز (سوا ارب روپے) تک جا پہنچی ہے۔ ابھی تو وزیراعظم شہباز شریف کی وزارت عظمی کے دور کی چند آڈیوز لیک ہوئی ہیں‘ اگر سابق وزیراعظم عمران خان کے دور کی بھی آڈیوز آنا شروع ہو گئیں تو کیا ہو گا؟ یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ نئے آرمی چیف کے تقرر کے موقع پر یہ نیا پینڈورا بکس کھولا گیا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ آڈیو لیکس لانے والوں کے ٹارگٹس اس سے کہیں زیادہ ’’ہائی ویلیو‘‘ ہوں کہ جتنے اس وقت بظاہر دکھائی دے رہے ہیں‘سابق وزیراعظم عمران خان اس وقت تو بہت چہک رہے ہیں لیکن اگر خود ان کے اپنے دور کی آڈیوز سامنے آنا شروع ہوگئیں تو کیا ہوگا؟ کیونکہ کہا جا رہا ہے کہ ڈارک ویب پر ان آڈیوز کی نیلامی کرنے والے گروپ کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور کی اعلیٰ سطح کی گفتگو کی خفیہ ریکارڈنگز بھی ان 115گھنٹے کی آڈیوز میں شامل ہیں‘ اگر گروپ کا دعویٰ درست نکلا تو وزیراعظم عمران خان اور ان کے سب سے قریبی ساتھی جہانگیر خان ترین کے درمیان اختلافات سے لے کر پی ٹی آئی حکومت کے آخری 6 مہینوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری رہنے والی حکومتی رسہ کشی تک جیسی انتہائی حساس گفتگو بھی سامنے آ سکتی ہے، ان نازک ترین لمحات میں وزیراعظم ہائوس اور وزیراعظم آفس میں کیا کیا باتیں ہوتی رہی ہوں گی ان کی سنگینی اور سنسنی خیزی کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں‘ اسلئے اگر کوئی غیرملکی ادارہ یا پاکستان دشمن قوت ان آڈیوز کی نیلامی جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو پاکستان کی سیاست ومعیشت کو آنے والے دنوں میں بہت بڑے بڑے دھچکے لگ سکتے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کی تشکیل اور سائبر سیکورٹی سے متعلق لیگل فریم ورک کی تیاری کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ جدید ٹیکنا لوجی اور سائبرا سپیس کے موجودہ تبدیل شدہ ماحول کے تناظر اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سکیورٹی،سیفٹی اور سرکاری کمیو نیکیشنز کے محفوظ ہونے کو یقینی بنانے کا جائزہ لیا جائے تاکہ سکیورٹی نظام میں کوئی رخنہ اندازی نہ کرسکے۔اب حکومت کی جانب سے آڈیو لیکس کی تحقیقات کیلئے جو اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی جا رہی ہے ،اس کے ذمے یہ کام بھی لگایا جانا چاہیے کہ ان عوامل کی بھی نشاندہی کر ے جن کے سبب 8ماہ تک ملکی دفاع کے اس اہم اور حساس شعبے کو نظر انداز کیاگیا ۔یہ امر بھی اہم ہے کہ مذکورہ کمیٹی محض کا غذی کارروائی اور ایک روایتی رپورٹ تک محدود نہ رہے بلکہ ان تمام ذمہ داران کو ملک و قوم کے سامنے لائے جو اس سارے معاملے میں ملوث ہیں ۔یہ محض آڈیو لیکس کا مسئلہ نہیں بلکہ ملکی سلامتی کا ایشو ہے جس پر کوئی کمپرو مائز نہیں کیا جاسکتا ۔گزشتہ روز سابق وزیر اعظم کی بھی ایک آڈیو سامنے آئی ، جس سے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ کام ابھی شروع نہیں ہو ا،بلکہ کئی مہینوں سے جاری ہے ۔اس خدشے سے اس کی حساسیت اور سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے ۔ ایف آئی اے جیسے اداروں کو وسعت دینا ہو گی اور سائبر کرائمز کی تحقیقات کے حوالے سے جدت طرازی کو اپنا طرہ بنانا ہوگا۔دوسری جانب اسحاق ڈار نے لندن سے واپس آنے کے بعد وزارتِ خزانہ کا چارج سنبھال لیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈار صاحب عارضی طور پر ڈالر کو نیچے لے آئیں اور اس کی قیمتیں مستحکم کر لیں لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ قلیل مدت میں اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکال سکیں گے۔ ڈالر جب تک برآمدات کے ذریعے ملک میں نہیں آئے گاتب تک یہ بحران یونہی برقرار رہے گا۔ ملکی برآمدات بڑھانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ روایتی ہے کہ آپ ٹیکسٹائل سیمنٹ و دیگر کارخانے لگا کرمال ایکسپورٹ کریں اور بدلے میں ڈالر کما کر غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھائیں۔ پاکستان ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں خاطرخواہ آمدنی کما رہا ہے لیکن یہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے ناکافی ہے۔ اس روایتی انداز میں زرِمبادلہ کا حصول ایک طویل اور صبر آزما راستہ ہے۔ اس کیلئے بہت زیادہ سرمایہ کاری چاہیے۔ ایک کارخانہ لگانے کے لئے کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ پھر اس کی پروڈکشن شروع ہونے اور مال ایکسپورٹ ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اس میدان میں مقابلہ بھی بہت سخت ہے کہ اسی خطے میں چین جیسا ملک بھی موجود ہے جو سوئی دھاگے سے لے کر ہوائی جہاز تک کے پرزے بناکر پوری دنیا کو سپلائی کر رہا ہے۔ چین اتنے بڑے اسکیل پر پروڈکشن کرتا ہے کہ پیداواری لاگت انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ پھر بھارت اور بنگلہ دیش بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ یہ بھی برآمدات میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ہم ان کے مقابلے میں سستی اور اعلیٰ معیار کی چیزیں بنائیں گے تبھی کوئی روایتی منڈیوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس آئے گا۔ پھر یہ بھی ایشو اہم ہے کہ ہمارے پاس اس وقت نہ بجلی ہے نہ گیس۔ صرف لیبر ہے لیکن یہ سستی لیبر جادو ٹونے سے تو مال تیار نہیں کر سکتی؛ چنانچہ برآمدات بڑھانے کا یہ روایتی طریقہ ملک کو اس معاشی دلدل سے نکالنے کیلئے کارآمد نظر نہیں آتا۔