پنجاب وائس چانسلرز کانفرنس!

October 02, 2022

وہ زمانہ یاد آگیا جب 2015 میں ڈاکٹر مختار احمد چیئرمین ایچ ای سی نے آل پاکستان وائس چانسلرز کانفرنس کا انعقاد لاہور میں کرایا ، اس وقت وفاق اور پنجاب میں نون لیگی حکومتیں تھیں لیکن کانفرنس کے تمام دن ہمیں پنجاب ایچ ای سی اور مرکزی ایچ ای سی میں کوئی ربط نظر آیا نہ تعاون۔ مرکز میں انجینئر بلیغ الرحمٰن ہائر ایجوکیشن کو دیکھ رہے تھے جبکہ پنجاب میں رانا مشہود ہائیر ایجوکیشن کے کرتا دھرتا تھے، اور کچھ عرصہ رضا علی گیلانی بھی تعلیم کو "دیکھتے" رہے۔ کانفرنس بڑی جاندار تھی ، اس میں جرأتمندانہ اقدام یہ بھی تھا کہ ایک میڈیا سیشن میں پاکستان کے نامور ادباء اور کالم نگاروں کے علاوہ درویش نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ گویا میڈیا کو ایک گھنٹہ دیا گیا کہ وہ تنقید و تحقیق کی نشترزنی کرلے۔ مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا کہ تمام وائس چانسلرز اور چیئرمین ایچ ای سی نے خندہ پیشانی سے سب سنا اور جوابات بھی ملے، یوں ماہر تعلیم سے باہر عام آدمی اور "عوامی" ترجمانوں کو بھی سمجھا اور سنا گیا جو ضروری ہے۔ بات کل کی ہو یا گلوبل ولیج کی جب تک یونیورسٹیاں سِوک سینس کو ساتھ لے کر نہیں چلیں گی تب تک ان کا انڈسٹریل لنکس میں موتیوں کی طرح پرویا جانا، انٹرپرنیورشپ کےباغ و بہار دینا یا کنسورشیم کو تقویت بخشنا ممکن ہی نہیں۔ا گر کوئی سمجھے تو لینگوئجز کی موسیقیت اور شگفتگی کو بحال اور مستحکم رکھنا بھی یونیورسٹیوں ہی کا فرض ہے۔ یونیورسٹیاں ہوتی ہی وہ ہیں جو علاقائی و قومی و بین الاقوامی اقتصادیات و سماجیات و سیاسیات اور سائنسز کو گود لیں۔ یونیورسٹیوں کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ کہیں کرائم سنڈیکیٹ ہو یا شیوخ الجامعات اور رجسٹرار کی اجارہ داری ہو۔ خیر ان میں سے کچھ قابل ہیں اور قوم کا انمول اثاثہ بھی!

ڈیموکریٹ ہونے کے باوجود ایک بات کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ، پنجاب کی حد تک آمریت کے گورنر، جنرل (ر) خالد مقبول جیسا چانسلر پاکستان کو بعد میں نصیب نہیں ہوا۔ کافی حد تک وائس چانسلرز کو عزت سلمان تاثیر نے ضرور دی۔ اگرچہ 18 ویں ترمیم کے بعد چانسلر/ گورنر کا عہدہ سیریمونیل ہو گیا مگر مصمم ارادے کیلئے تو اعزازی ہونا بھی کافی ہوتا ہے۔ راقم متذکرہ کانفرنس کے دوران ہی یہ سطور لکھ رہا ہے، اور موجودہ چانسلر کو پورے انہماک سے سنا اپنی شاگردانہ فطرت کے خضوع و خشوع کو بھی بروئے کار رکھا مگر خیالی پلاؤ اور ہوا میں باتوں اور تیروں کے سوا کچھ نہ ملا (ممکن ہے یہ میری نالائقی ہو)۔ اڑتی ہوئی ملی تھی خبر بزمِ ناز سے کہ اس کانفرنس کا انعقاد ہی کنسورشیم ڈویلپمنٹ کیلئے کیا گیا، یہ اچھا خواب ہے اگر تعبیر پاسکے۔ مگر اس کیلئے اے ٹو زیڈ ڈیٹا، یونیورسٹیوں کی ضروریات، چیلنجز اور ایکوسسٹم کو مدنظر رکھنے کا کے آغاز کا ہے ،مگر ہنوز دلی دور است۔ نوخیز، نوجوان اور بالغ (کچھ نابالغ) میں تحقیقی ، تعلیمی، لیبارٹریز اور فیکلٹی سہولیات میں کمی بیشی کا ڈیٹا کہاں ہے ، یا کب بننا شروع ہوا ؟ عالم تو یہ ہے کہ، ہماری یونیورسٹیوں میں پروفیسر ایک دوسرے کو اپنی لیبارٹریز میں نہیں گھسنے دیتے، وی سیز فیکلٹی خانہ جنگی کے علاوہ انٹرا اور انٹر ڈیپارٹمنٹل جنگ بندی نہیں ہوتی، ORIC اور QEC عہدوں کیلئے جونیئرز کو بھی خوب لڑنا آگیا ہے یونیورسٹی چاہے نوخیز ہی کیوں نہ ہو۔ راقم کی سمجھ سے یہ باہر ہے خواتین یونیورسٹیاں کیوں بنائی گئیں (مانا کہ مغرب میں بھی کوئی ہوگی) اگر بناچکے تو خواتین اسٹاف کے بجائے مرد کیوں ہیں؟ اوکے، پروفیسرز نہیں ملتی ہیں تو اسسٹنٹ پروفیسرز اور لیکچرارز کی مارکیٹ اور معاشرے میں کوئی کمی نہیں۔ رجسٹرار کیلئے بھی متعدد جگہوں پر مرد کیوں؟ بہرحال کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں جہاں چیئرمین ایچ ای سی نے غیر روایتی گفتگو کو رواج بخشا اور انجمن ستائش باہمی کا دیپ نہیں جلایا۔ کھری بات کی کہ نئی یونیورسٹیاں اور بالخصوص تحصیل لیول تک یونیورسٹیاں کھولنا غلط ہے۔ وہ غلط کہتے ہیں لیکن درویش اس سیاسی عمل کو تعلیمی سمجھتا ہی نہیں۔ وہ الگ بات ہے چانسلر نے چیرمین ایچ ای سی کی ایک دو باتوں سے اتفاق نہیں کیا مگر وہ بھی ایک "سیاسی بےاتفاقی" تھی۔ محسوس ہوتا ہے ہمارے چانسلرز تعلیمی معاملات، خبروں اور تجزیوں سے بہت دور ہوتے ہیں۔

چیئرمین پنجاب ایچ ای سی ڈاکٹر شاہد منیر نے 11 ایمرجنگ گلوبل ٹرینڈز کے ساتھ کانفرنس کے باب کو کھولا، لگتا ہے بعد میں تقریریں فرمانے اور پریزینٹیشن دینے والے وائس چانسلرز نے یہ سب بالائے طاق رکھ دیا۔ (یہ کہانی پھر سہی) بی ایڈ کے اسٹوڈنٹس کی ٹریننگ شروع ہو گئی ، سابق چیئر پرسنز پنجاب ایچ ای سی ڈاکٹر نظام اور ڈاکٹر فضل خالد کے 'تعلیمی خطبے قابلِ غور تھے مگر اپنے اپنے ادوار میں وہ سب کیوں نہ دے سکے۔ سب کچھ فیلڈ کے بجائے ہمارے ڈرائنگ رومز یا ہالز ہی میں کیوں ہے؟ بہرکیف اس دفعہ مرکزی و صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشنز کو ایک صفحہ پر دیکھا، اگر ایسے ہی رہا تو بناؤ کے مواقع بڑھ جائیں گے۔

شاید ہم پھنسے ہوئے ہیں جرمنی و برطانیہ و امریکہ کے ہائر ایجوکیشن سسٹم میں، کوئی ایک چُن لیں یا پاکستانی اسٹائل ان تینوں کا ہائبرڈ کیوں نہیں بنالیتے؟ اور یہ بھی ضروری ہے یونیورسٹیوں کی قیادت اپنے لحاظ سے انڈسٹری اور کمیونٹی سروسز چُنے، آئی بی اے، نَسٹ، کامسٹ ، فاسٹ اور پبلک سیکٹر میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ماڈلز کو ضرور دیکھنا چاہئے یہاں ارتقاء ہے۔ کیا یہ بھی دلخراش نہیں کہ سب سے زیادہ تعلیمی تناسب رکھنے والی ریاست ، آزاد جموں و کشمیر کی یونیورسٹیوں میں سے ایک بھی امپیکٹ فیکٹر جرنل نہیں ملتا! مفید اور قابلِ استعمال ریسرچ ہو تو انڈسٹری کی یونیورسٹیوں کی قدم بوسی کیلئے لائن لگ جائے گی۔ بہرحال یونیورسٹی کی لیڈرشپ کے پاس اگر فنانس مینجمنٹ، ریسرچ مینجمنٹ، مارکیٹ مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن ہو (وہ محض ہیڈ ماسٹر نہ ہو) پھر یونیورسٹی نئی ہو یا پرانی فنڈز کے مسئلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ! کاش اس کانفرنس میں وی سی اخلاقیات اور کرائم سنڈیکیٹ کے خاتمہ کا کوئی غیر محسوس یا خفیہ اجلاس بھی ہوجاتا!