سیاسی دھند مزید گہری!

October 04, 2022

ملک کا بحران زدہ سیاسی افق صاف ہونے کی بجائے روز بروز مزید دھندلا ہوتا جا رہا ہے اور میدان عمل میں سرگرم کردار بظاہر معاملے کے نتائج و عواقب کی فکر کئے بغیر اپنے اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈٹے ہوئے ہیں ۔ ایک طرف عدم اعتمادکی تحریک کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے والا سیاسی فریق ہے جس نے عوامی ، طاقت کے زعم میں اسلام آباد پر چڑھائی کر کے حکومت کا تختہ الٹنے کا تہیہ کر لیا ہے تو دوسری طرف کثیر الجماعتی حکومت ہے جس نے قانونی عمل کے ذریعے اسے شکست دینے کی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ ایک آنچ کی کسر رہ گئی تھی جو وزیر اعظم ہائوس سے دو آڈیوز کے لیک ہونے سے پوری ہو گئی ہے۔ یہ آڈیوز امریکہ میں پاکستانی سفیر کے بھیجے گئے ایک سفارتی سائفر یا مراسلے کے بارے میں ہے جس کو بنیاد بنا کر سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اور دو وفاقی وزراء کے مشورے سے اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کے بیانیے کا تانا بانا بنا تھا۔ اسی بیانیے کی بنیاد پر عمران خان موجودہ حکومت کو ’امپورٹڈ‘ کہتے ہیں اور اپنے جلسے جلوسوں کو قومی آزادی کی تحریک کا نام دے رہے ہیں۔ آڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ سائفر کو امریکہ کے خلاف نفرت پھیلا کر پاک امریکہ تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے غیر ملکی سازش کا بیانیہ گھڑا گیا جس میں ریاستی اداروں کو بھی ملوث کیاگیا۔ آڈیوز کی تحقیقات کیلئے حکومت نے وزارتی کمیٹی قائم کی تھی جس کی سفارش پر وفاقی کابینہ نے عمران خان ، شاہ محمود قریشی ، اسد عمر اور وزیر اعظم کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے خلاف قانونی کارروائی کی منظوری دی ہے اور تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کے سینئر حکام پر مشتمل کمیٹی قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ کمیٹی کو دوسری ایجنسیوں کی معاونت حاصل کرنے کا اختیار بھی ہو گا۔ اس وقت آئی ایس آئی اور آئی بی کی ٹیم بھی معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایف آئی اے ان کی معاونت بھی حاصل کر سکے گی جس سے تحقیقات کا دائرہ وسیع اور زیادہ مستند ہو جائے گا۔ وزارتی کمیٹی نے اپنی سفارش میں کہا ہے کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے جس کے قومی مفادات پر سنگین اور مضر اثرات ہیں اس لئے کارروائی لازم ہے۔ کابینہ ڈویژن نے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے وزارت داخلہ کو مراسلہ جاری کر دیا ہے جس میں فوری اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔ آڈیولیک اس وقت ملکی سیاست کا محور بن گئی ہے۔ اس کے اثرات دور دور تک کئی معاملات کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عمران خان اور پی ٹی آئی کے بعض لیڈر گرفتار کئے جا سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے ورکروں کو سڑکوں پر لا سکتی ہے جنہیں حکومت روکے گی تو ملک میں انارکی کا ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک اور تنازع وزیر اعظم ہائوس سے سائفر کے گم ہونے کا پیدا ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ وہ عمران خان اپنے ساتھ لے گئے تھے جبکہ عمران خان نے تسلیم کیا ہے کہ وہ کہیں گم ہو گیا ہے۔ یہ معاملہ سرکاری راز داری کے زمرے میں آتا ہے جو ایک اور سنگین جرم ہے۔ پی ٹی آئی امریکی سازش کے بیانیے اور سائفر کا اب بھی دفاع کر رہی ہے۔ اس مسئلے پر قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بھی غور ہو چکا ہے جس میں اہم اور بنیادی نوعیت کے فیصلے ہوئے لیکن اجلاس ’’ان کیمرہ‘‘ ہونے کی وجہ سے ان کی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ سیاسی کشیدگی فریقین کا غیر لچکدار رویہ، معاشی بحران اور سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال ملکی استحکام کے حوالے سے نیک فال نہیں ہیں۔ سیاسی قوتوں کو چاہئے کہ اپنی انا کی تسکین اور اقتدار کی خاطر قوم کے مستقبل کو دائو پر نہ لگائیں اور افہام و تفہیم کے ذریعے حقیقی جمہوری جذبے سے ملک کو انارکی سے بچانے کیلئے اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔