یہی ساٹھ ستر برس

October 04, 2022

یہی ساٹھ ستر برس کا قصہ ہے، زیادہ سے زیادہ کوئی اسی نوے نہیں تو سو برس جی لے گا، اس کےبعد اسے موت کی وادی میں اترنا ہے۔ وہ جن کے لئے یہاں مرتا ہے وہ سب اس کے لئے بے سود ہو جائیں گے، وہ جن کے لئے پاپ کرتا ہے ، ان سب سے بچھڑ جائے گا اور پھر کبھی ان کو نہیں ملےگا۔ اب سوال پید ا ہوتا ہے کہ اس عارضی ٹھکانے پر تھوڑے سے قیام کے چکر میں انسان اپنے جیسے انسانوں پر ظلم کرتا ہے، لوگوں کا حق کھاتا ہے، جھوٹ بولتاہے، چکر دیتا ہے حالانکہ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ یہاں سب کچھ مٹ جانے کے لئے تو بنا ہے لیکن انسان پتہ ہونے کے باوجود اپنے چکروں میں لگا رہتا ہے۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ کے سامنے خوف ناک مناظر رکھ رہا ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ میرے اپنے گرد بے شمار خوف ناک مناظر ہیں۔ میں ایک ایسے سیاستدان کو جانتا ہوں جو وفاقی وزیر رہا، بڑے بڑے لوگ اس کے گھر کا طواف کرتے تھے، اس نے پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت سی جائیدادیں بنائیں (یاد رہے کہ جائیدادیں اتنے کم عرصے میں رزق حلال سے نہیں بنتیں) وہ بڑا خوش لباس تھا۔ ظاہر ہے اس نے دولت کے ڈھیر اپنی اولاد کے لئے لگائے تھے اور دولت کے ان ڈھیروں میں پتہ نہیں کتنا ظلم تھا، کس کس کا خون تھا، کس کس کی آہیں تھیں، وہ موت سے قبل میرے ایک دوست کو تواتر سے ملا اور اسے کہتا رہا کہ ...’’میں نے جس اولاد کے لئے سب کچھ کیا اس کی حالت یہ ہے کہ وہ میری شکل نہیں دیکھنا چاہتی بلکہ میرا بڑا بیٹا تو اکثر میرا گریبان پکڑ لیتا ہے، مجھے گالیاں دیتا ہے، میری بے عزتی اور توہین کرتا ہے...‘‘

میں ایک ایسے آدمی کو جانتا ہوں جس نے بے شمار زمینوں پر قبضے کئے، اس کا نام لوگوں کے لئے دہشت کی علامت تھا،اس نے محض جائیدادیں ہتھیانے کے لئے کئی بیوائوں کے گلے دبائے، اس نے کئی افراد کو گولیاں مار کر مارا اور پھر ان کی لاشیں دریا کے حوالے کردیں۔ وہ کہیں جاتا تو گاڑیوں کا لائو لشکر اس کے ساتھ چلتا تھا مگر پھر ایک ایسا دن آگیا جب اسے خود موت کے شکنجے میں جانا پڑا۔

خواتین و حضرات! میں ایک ایسے ظالم انسان کو بھی جانتا ہوں جو لوگوں پر کتے چھوڑتا، کچھ کو شیروں کے سامنے ڈالتا اور کچھ افراد پر سانپ چھوڑ دیتا تھا مگر آج وہ خود خاک کا رزق ہو چکا ہے، قبر میں اس کے جسم پر بھی یہ سب چیزیں چھوڑی گئی ہوں گی۔ میں ایک ایسے شخص کوبھی جانتا ہوں جس نے اپنا سفر غربت سے شروع کیا، وہ ایک آفس میں چپراسی تھا مگر آج کھربوں کا مالک ہے بلکہ بڑا ٹائیکون ہے۔ میں تین سے چار ایسے افراد کوبھی جانتا ہوں جو پولیس میں سپاہی بھرتی ہوئے پھر انہوں نے ملازمت چھوڑی اور پتہ نہیں کون کون سی ہیرا پھیریاں کیں کہ آج یہ چاروں افراد کھربوں پتی ہیں، ان کے ناز نخرے ہیں مگر ان تمام ناز نخروں کے پیچھے ناجائز قبضے، بے گناہ انسانوں کے قتل اور کئی دوسری وارداتیں ہیں۔ میں ایک ایسے آدمی کو بھی جانتا ہوں جس کا واردات کرنے کا انداز بے حد نرالا ہے وہ ایسی جائیدادیں ڈھونڈتا ہے جن کے ورثا کی تعداد دو تین یا تین چار ہو، وہ کسی ایک سے سودا کرتا ہے اسے کچھ پیسے دیتا ہے اور باقی ورثا کو مار دیتا ہے یوں جائیدادیں بنانے والوں کی اولادیں جائیدادوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ میں کئی ایسے افراد کو جانتا ہوں جن کی زندگی کا آغاز بطور منشی ہوا مگر پھر انہوں نے اپنے ہی مالکان کو چونا لگانا شروع کردیا حتیٰ کہ وہ خود مالک بن گئے۔

یقین کیجئے ایسے افراد نے اپنی اولادوں سے سکھ نہیں پایا، ان میں سے اکثر افراد کے حالات موت سے پہلے انتہائی بھیانک ہوگئے، بعض کے جنازے مشکل ہوگئے۔ بعض کی جان تڑپ تڑپ کر نکلی مگر انسان سوچتے نہیں، انسانوں کو دولت کے حصول نے اندھا بنا رکھا ہے، انسانوں نے دولت کی ہوس میں ظلم کا لباس پہن رکھا ہے۔ باب العلم مولاعلیؓ کے دو اقوال پیش کر رہا ہوں کہ شاید معاشرے کے بیمار ذہنوں میں مسیحائی کے موتی اتر کر انسانوں کے لئے مفید بن جائیں۔ مولاعلیؓ فرماتے ہیں ... ’’دنیا میں جہاں کہیں بھی دولت کے انبار دیکھو تو سمجھ جائو کہ کہیں نہ کہیں گڑ بڑ ضرور ہوئی ہے...‘‘ دولت کی حیثیت کی وضاحت کے لئے شیر خدا نے اپنی ہتھیلی پر تھوڑی سی خاک رکھی پھر پھونک مار کر اڑا دی اور فرمایا ... ’’بس دولت کی یہی حیثیت ہے...‘‘

میں نے جتنے لوگوں کی مثالیں دیں انہوں نے ظلم کمایا، انہوں نے اپنی قبروں کو خراب کیا اور آج حالت یہ ہے کہ ان کی قبروں پر ان کی اپنی اولادیں بھی حاضر نہیں ہوتیں، بعض کی قبروں کا اولادوں کو علم بھی نہیں۔ ظلم کمانے والوں کی اولادیں جائیدادوں پر لڑ رہی ہیں، ایک دوسرے پر مقدمات بنا رہی ہیں، ان میں سے بعض تو ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ مظلوموں کو اس ظالمانہ نظام میں تو انصاف نہیں مل سکا مگر یومِ حساب کو انصاف ضرور ملےگا البتہ بقول محسن نقوی ؎

اجاڑ گھر کے کسی بے صدا دریچے میں

کوئی چراغ جلے بھی تو کون دیکھتا ہے