نئی معاشی حکمت عملی

October 05, 2022

ملک کے موجودہ سنگین معاشی بحران کا سب سے بڑا سبب دوسرے منفی عوامل کے علاوہ بلاشبہ روپے کی ناقدری ہے۔ جوں جوں ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بڑھتی گئی، افراط زر میں اضافہ ہوتا گیااور خدمات سمیت عام استعمال کی روزمرہ اشیاء کی ہرچیز مہنگی ہوتی چلی گئی۔ یہ سلسلہ سابق حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا جس پر قابو پانے کے لئے موجودہ حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی کے لئے کچھ مشکل فیصلے کئے جن کے نتیجے میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی۔ اس سے عام آدمی تو کیا متوسط طبقہ بھی غربت کی لکیر کی طرف جانے لگا۔ تاہم اسے حکومت کی کامیاب حکمت عملی کہیے یا وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی خوش بختی کہ ان کی وطن واپسی کے ساتھ ہی ڈالر اپنی قدر کھونے لگا اور روپے کی قیمت بڑھنے لگی۔ چند دنوں میں ہی ڈالر جوڈھائی سو روپے کا ہونے والا تھا گر کر 227 روپے کا ہوگیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ لیکن اسحاق ڈار اس سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ جیو نیوز کے پروگرام کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ڈالر کی اس وقت جو قیمت ہے وہ حقیقی نہیں۔ اصل قدر 200 روپے سے کم ہے۔ ہم نے حکمت عملی بنالی ہے۔ ڈالر دوسو کی حد سے بھی نیچے جائے گا۔ سٹہ بازوں نے خوب کھیل کھیلا۔ اب نہیں کھیلنے دیں گے۔ روپیہ انشاء اللہ اوپر جائے گا اور مہنگائی کم ہوگی۔ ہم عوام کی تکلیف کو نہیں بھول سکتے۔ ڈالر نیچے آرہا ہے اور لوگ خوشی محسوس کررہے ہیں۔ انہیں ریلیف پہنچانے کے حوالے سے ہر وعدہ پورا کریں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2016 میں عالمی سطح پر پیش گوئی کی جارہی تھی کہ ہماری کارکردگی سے پاکستان 2030 میں دنیا کی 18ویں بڑی معیشت بن جائے گا لیکن 126 دن کے دھرنے سے نہ صرف سی پیک ایک سال تاخیر کا شکار ہوا بلکہ ملک کے معاشی قوت بننے کے خواب پر بھی پانی پھر گیا، وزیر خزانہ معاشی استحکام کے لئے جو اقدامات کررہے ہیں اس سے یہ توقع بے جا نہیں کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ آئی ایم ایف نے جو سخت شرائط عائد کررکھی ہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے وہ ان میں لچک پیدا کرنے کا اشارہ دے چکا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس ضمن میں بین الاقوامی برادری سے پاکستان کے لئے 160 ملین ڈالر امداد کی جو اپیل کی تھی اس پر نظر ثانی کرکے 816 ملین ڈالر دینے کے لئے کہا ہے امریکہ نے پاکستان کے لئے سستے روسی تیل اور گندم کی خریداری پر پابندی ختم کردی ہے۔ فیٹف کے آئندہ اجلاس میں جو اگلے ہفتے پیرس میں ہورہا ہے پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموارہوچکی ہے ۔ غیرملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں دور کی جارہی ہیں جس سے ملک میں انفراسٹرکچر اور صنعتی ترقی کا عمل بحال ہوجائے گا۔ ٹیکسٹائل مصنوعات کا برآمدی تجارت میں پاکستان کا سب سے بڑا حصہ ہے۔ وزیر خزانہ نے اس کے برآمد کنندگان سے ملاقات کرکے خصوصی ٹیرف کی بحالی کا مسئلہ حل کرنے کا راستہ نکالا ہے۔ شوگر انڈسٹری ایسوسی ایشن چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگ رہی ہے۔ یہ مسئلہ بھی حل ہونے کی توقع ہے۔ اسٹاک مارکیٹ آہستہ آہستہ استحکام کی جانب گامزن ہے۔ صرف ایک چیز کی کمی ہے وہ ہے سیاسی استحکام ۔ اگر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سننےاور ملکی مفاد میں بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے کا حوصلہ پیدا کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقصد بھی حاصل نہ ہوجائے۔ حکومت، خصوصاً اپوزیشن اپنے اپنے رویے میں لچک پیدا کرکے استحکام کے لئے آگے بڑھیں تو ملک موجودہ سیاسی اور معاشی بحران سے نکل سکتا ہے۔ دونوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ حکومت کو اس مرحلے پر کوشش کرنی چاہیے کہ روپے کی بڑھتی قدر کے ثمرات عام آدم تک بھی پہنچیں اور مہنگائی کا زور ٹوٹ جائے۔