عوام کی ریڈلائنز بھی ہیں!

October 06, 2022

آئین کے آرٹیکل 62 (1)(f) کے حوالے سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی ہے کہ کسی بھی عوامی نمائندہ کی تا حیات نااہلی ایک کالا قانون ہے۔ چیف جسٹس کے اس بیان نے جہاں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کے اپنے پرانے کیسوں کے حوالے سے ایک بحث چھیڑ دی، وہیں سیاست اور صحافت سے تعلق رکھنے والے یک طبقہ نے آئین کی اس شق کے ہی خاتمہ کا مطالبہ شروع کردیا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ جب تک یہ آئینی شق ختم نہیں ہوتی سیاستدان عدلیہ کے ہاتھوں عمر بھر کے لیے نااہل ہوتے رہیں گے۔ معاملہ سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلوں کا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ بغیر اپیل کا حق دیے کسی بھی سیاستدان کو زندگی بھر کے لیے سپریم کورٹ کیسے ہمیشہ کے لیے نااہل کرسکتی ہے؟ سوال یہ بنتا ہے کہ جب آئین کا آرٹیکل 62(1)(f) نااہلی کی مدت کے بارے میں خاموش ہے تو پھر سپریم کورٹ نے ایسے فیصلے کیوں دیے جو زندگی بھر کے لیے سیاستدانوں کو سیاست میں حصہ لینے، الیکشن لڑنے اور کوئی بھی حکومتی عہدہ رکھنے سے ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دیتے ہیں؟ گویا مسئلہ یا نقص تو سپریم کورٹ کے فیصلوں میں نکالا جا رہا ہے لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ آئین کی اس شق کو ہی ختم کر دیا جائے۔

آئین کا آرٹیکل 62(1)(f) ہمارے دستور کی اسلامی شقوں میں سے ایک شق ہے اور ایک مخصوص طبقہ اس اسلامی شق کو اس لیے نشانہ بنا رہا ہے کہ اس شق کے مطابق ایسے افراد ہماری پارلیمنٹ، اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں داخل نہیں ہوسکتے جن کو کسی عدالتی فیصلہ کے نتیجے میں یہ کہا گیا ہو کہ وہ صادق اور امین نہیں، یعنی وہ سچے اور امانت دار نہیں۔ اگر عدالت کسی فرد کے بارے میں یہ فیصلہ دے کہ وہ جھوٹا ہے، سچا نہیں، وہ بے ایمان ہے اور امانت دار نہیں تو ایسا کوئی فرد پارلیمنٹ اور اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکتا۔ بحث کرتے ہیں کہ صادق اور امین تو کوئی عام فرد ہو ہی نہیں سکتا۔ بھئی آئین کہاں کہتا کہ کسی فرد کے سچے اور امانت دار ہونے کا کیا معیار ہے؟ آئین کی منشا تو یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے ثابت ہونے والا جھوٹا اور بے ایمان شخص پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں داخل ہونے کا اہل نہ ہوسکے۔ بجائے اس کے کہ ہم واقعی آئین کی منشا کے مطابق اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہم میں موجود اپنے کردار اور اخلاق کے لحاظ سے بہترین افراد ہی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکیں تاکہ قوم کی امانتیں اُن کے سپرد کی جائیں اور حق حکمرانی اُنہیں حاصل ہو جو اچھے باعمل مسلمان ہوں، اُن کی repute سچے اور ایماندار افراد کی ہو۔ اب بتائیں اس آئینی شق میں کیا مسئلہ ہے؟ یہ تو بہترین شق ہے اور اس پر اگر عمل کیا جائے تو ہمارے ممبران اسمبلی وہی بن سکتے ہیں جو باکردار ہوں، ایماندار ہوں، سچے ہوں۔ زور تو اس بات پر ہونا چاہیے کہ آئین پر عمل درآمد کریں اور ایسی اسلامی شقیں جن کو لاگو کرنے میں کبھی کسی نے دلچسپی نہیں لی اور جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اسمبلیوں میں پہنچ جاتے ہیں، اُن پر سختی سے عمل کیا جائے اور اس کے لیے ایسا طریقہ بنایا جائے کہ کوئی کمزور کردار کا حامل پارلیمنٹ میں داخل نہ ہو سکے۔ چیف جسٹس صاحب نے جو کالے قانون کی بات کی ، یہ تو دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے ہیں جنہوں نے ایک بہترین قانون کو کالا قانون بنا دیا۔ اس آئینی شق یا قانون میں کوئی خامی نہیں۔ خامی تو اُن ججوں کے فیصلوں میں تھی جنہوں نے انصاف کے نام پر ناانصافی کی۔ سپریم کورٹ کو ایسے قانون یا شق کے حوالے سے کالا قانون کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیےتھا، عدالتِ عظمیٰ کے لیے بہتر ہو گا کہ اپنے پرانے متنازعہ فیصلوں کو درست کرے۔ جہاں تک ایک مخصوص طبقہ کی اس خواہش کا تعلق ہے کہ پاکستان کے آئین کی اسلامی شقوں کو نشانہ بنایا جائے اور اس دستور کو سیکولر بنا دیا جائے تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان کے آئین کی اسلامی شقیں پاکستان کی قوم کے لیے ریڈ لائنز کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایسی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا جس کا مقصد آئین کی اسلامی شقوں کو کمزور یا ختم کرنا ہو۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)