بعثتِ نبوی ﷺ کے بُنیادی مقاصد اور اُس کے تقاضے

October 07, 2022

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یقیناً بڑا احسان کیا ہے اللہ نے مومنوں پر کہ بھیجا ان میں ایک رسولؐ اُنہی میں سے جو پڑھ کر سُناتا ، اُنہیں اللہ کی آیات اور تزکیۂ (نفس) کرتا ہے اُن کا اور تعلیم دیتا ہے اُنہیں کتاب اللہ کی اور سکھاتا ہے انہیں حکمت۔ اگرچہ تھے وہ اس سے پہلے یقیناً کُھلی گمراہی میں۔ (سورۂ آل عمران) اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان والے بندوں پراپنے خصوصی احسان و انعام کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ اس طور پر کہ اس با برکت ذات نے سید الانبیاء والمرسلین، شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین ﷺ کو لوگوں کے درمیان مبعوث فرمایا اور یہ خالق کائنات اور مالک کل کی بے پناہ نعمتوں میں سے وہ واحد نعمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دینے کے بعد جتایا ہے اور اس کی تکمیل کے طور پر آپ ﷺ کی بعثت و رسالت کے تین اہم مقاصد اورفرائض منصبی بیان فرمائے ہیں۔ ایک تلاوت آیاتِ قرآنیہ۔

دوسرا تعلیمِ کتاب و حکمت اور تیسرا لوگوں کا تزکیۂ نفس۔ تمام معتبر تفاسیر کے مطابق اس آیت میں تلاوت ِآیات قرآنیہ کو، تعلیم ِکتاب و حکمت سے جدا کر کے، مستقل فرض کی حیثیت دینے میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کی تلاوت اور ان کی حفاظت اور انہیں ٹھیک ٹھیک اُسی لب و لہجے میں پڑھنا جس میں وہ نازل ہوئے ہیں ایک مستقل فرض ہے، کیونکہ قرآن کریم کے جس طرح معانی مقصود ہیں، اسی طرح الفاظ بھی مقصود ہیں، اس لئے کہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے معانی کی نہیں ہوتی۔

اس لحاظ سے قرآن کریم کے الفاظ کی درست لب ولہجے میں تلاوت ایک مستقل فرض ہے،البتہ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کے نزول کا اصل مقصد اس کے بتائے ہوئے نظام زندگی پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات کو سمجھنا اور سمجھانا ہے۔صرف اس کے الفاظ رٹ لینے پر قناعت و اکتفاء کرلینا قرآن کریم کے نزول کی حقیقت سے بے خبری اور خود قرآن کی ناقدری ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے کہ جب تک قرآن کریم کے الفاظ کے معانی کونہ سمجھا جائے،تب تک طوطے کی طرح اس کے الفاظ رٹنا فضول ہے۔ کیونکہ قرآن کریم عام کتابوں کی طرح نہیں ہے ، یہ الفاظ اور معانی دونوں کے مجموعے کا نام ہے، جس طرح اس کے معانی کا سمجھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا فرض اور اعلیٰ عبادت ہے، اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت بھی ایک مستقل عبادت اور بڑے اجر وثواب کی بات ہے۔

حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص اللہ کی کتاب کا ایک حرف تلاوت کرے گا، اُس کے لئے اُس ایک حرف کی تلاوت کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے۔(جامع ترمذی) یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جو قرآن کریم کے معانی کو سب سے زیادہ جاننے والے اور سمجھنے والے تھے۔

انہوں نے محض سمجھ لینے اوراس پر عمل کرلینے کو کافی نہیں سمجھا، کیونکہ سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے تو ایک مرتبہ پڑھ لینا کافی ہے، لیکن انہوں نے ساری زندگی قرآن کریم کی تلاوت کو حرزِ جان بنائے رکھا۔ بعض صحابہؓ روزانہ پوراقرآن کریم تلاوت کر لیا کرتے تھے۔ اکثر تین دن میں پورا تلاوت کر لیتے تھےاور ہفتے میں ایک دفعہ پورا قرآن تلاوت کر نے کا معمول تو امت کے تمام صُلحاء و اولیاء کا رہا ہے۔

قرآن کریم کی سات منزلیں اسی ہفتہ واری معمول کی علامت ہیں تو رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا عمل یہ بتا رہا ہے کہ جس طرح قرآن کریم کے معانی کا سمجھنا اور عمل کرنا اصلی عبادت ہے۔اسی طرح اس کے الفاظ کی تلاوت باعثِ ثواب،موجب ِانوار و برکات اور سرمایۂ سعادت و نجات ہے۔ اسی لئے رسول اکرم ﷺ کے فرائض منصبی میں تلاوت آیات قرآنیہ کو ایک مستقل فرض کی حیثیت دی گئی ہے۔

اسی طرح تلاوت آیات قرآنیہ کے فرض کے ساتھ تعلیم کتاب و حکمت کو جداگانہ فرض قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ قرآن فہمی کے لئے صرف عربی زبان کا جان لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیم اور ان کی احادیث کی روشنی میں رہنمائی کی ضرورت ہے ۔قرآن کریم اللہ رب العزت کی آخری آسمانی کتاب ہے ،جو علوم و معارف کا خزینہ ہے، جس میں زندگی گزارنے کے اصول وضابطے بیان فرمائے گئے ہیں، جس میں انفرادی واجتماعی حیات کے حوالے سے قوانین اور احکام متعارف کروائے گئے ہیں، اس حوالے سے یہ سمجھ لینا کہ وہ محض عربی زبان سیکھنے لینے یا جان لینے سے سمجھ میں آسکتے ہیں تو یہ ایک انتہائی ناممکن سی بات ہے۔

آیت میں رسول اکرم ﷺ کا تیسرا فرض منصبی تزکیۂ نفس قرار دیا گیا ہے، تزکیہ کے معنیٰ اپنے نفس کو باطنی نجاست اور گندگی سے پاک کرنا ہے، یعنی کفر وشرک سے،اسی طرح تمام باطنی رزائل سے مثلاً غرور و تکبر، حرص ولالچ، بغض و حسد، کینہ و عداوت ، حب جاہ و مال وغیرہ وغیرہ سے اور یہاں پر تزکیۂ نفس کو تعلیم ِ کتاب سے جدا کر کے ایک مستقل فرض منصبی قرار دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ تعلیم کتنی ہی معیاری کیوں نہ ہو، محض تعلیم سے عادتاً اصلاح ِنفس اور تزکیۂ اخلاق نہیں ہوتا، جب تک کہ کسی تربیت یافتہ مربی کے زیر نگرانی عملی تربیت حاصل نہ کر لے، کیونکہ تعلیم کا کام سیدھا راستہ دکھا دینا ہے، مگر منزل ِ مقصود تک پہنچنے کے لئے محض راستے کا جان لینا کافی نہیں ہے۔ اس کے لئے رسول اکرمﷺ کی اطاعت واتباع ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائے۔(آمین یا رب العالمین)