پاک امریکہ تعلقات

October 07, 2022

پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ایک ہفتے کے دورے پر امریکہ میں ہیں۔ بدھ کے روز ان کی امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن سے ملاقات ہوئی جس کا فوکس امریکی وزیر دفاع کے بموجب باہمی دلچسپی کے میدانوں میں ہر دو دفاعی اسٹیبلشمنٹ کا مفاد تھا۔ پاکستانی سپہ سالار کی امریکی تھنک ٹینکس سے بھی مفید ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ سفارتی ذرائع کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو طرفہ تعاون میں مزید بہتری کے لئے تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان روابط کے فروغ پر زور دیا۔ پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لئے کی گئی فوجی کاوشوں سمیت تفصیلات شیئر کیں، سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے عالمی شراکت داروں کی مدد کو ناگزیر قرار دیااور افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد خطّے کی صورت حال اور خود افغانستان کی کیفیت پر تبادلہ خیال کیا۔ واشنگٹن کے پاکستانی سفارت خانے میں ظہرانے کے موقع پر خطاب اور غیر رسمی گفتگو میں جنرل باجوہ نےیہ واضح کیا کہ مسلح افواج خود کوسیاست سے دور کرچکیں اور دور ہی رہنا چاہتی ہیں جبکہ بطور آرمی چیف اپنے عہدے کی دوسری میعاد کی تکمیل پروہ (جنرل باجوہ)سبکدوش ہو جائیں گے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا ملک کی لاغر معیشت کوبحال کرنا معاشرے کے ہر حصّے دار کی ترجیح ہونی چاہئے۔ مضبوط معیشت کے بغیر قومی ہدف حاصل ہوگا نہ سفارت کاری ہوسکتی ہے۔ بدھ کے روز امریکی وزیر دفاع آسٹن نے اپنی سرکاری سائٹ پر ٹوئٹ کے علاوہ دفتر سے جاری کئے گئے بیان میں پاک امریکہ شراکت داری کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پاک امریکہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ پر وہ پینٹاگان میں جنرل باجوہ کے میزبان تھے۔ اس موقع پر گفتگو دونوں ملکوں کے باہمی دفاعی مفادات کے مواقع پر مرکوز رہی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بھی ایک بیان میں واضح کیا کہ دونوں رہنمائوں نے علاقائی سیکورٹی کی صورتحال اور مختلف میدانوں میں باہمی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ آئی ایس پی آر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے لئے مسلسل معاونت اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی و اقتصادی تعاون بڑھانے پر بھی گفتگو ہوئی۔ واشنگٹن کے سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مبصرین اس باب میں امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس کے بموجب کانگریس سے پاکستان کے ایف16طیاروں کی مرمت و درستی کےلئے 450ملین ڈالر جاری کرنے کے لئے کہا گیااور اس امر پر بھارتی اعتراض مسترد کرتے ہوئے ایف16طیاروں کے معاملے کو دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کی ضرورت قرار دیا گیا۔ اس باب میں پاکستانی سپہ سالار کی واشنگٹن آمد سے ایک روز قبل جاری ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ قابل ذکر ہے جس میں مشورہ دیا گیا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات باہمی احترام اور ایک دوسرے کے مفادات ملحوظ رکھتے ہوئے دوبارہ استوار کئے جانے چاہئیں۔ مذکورہ رپورٹ جنوبی ایشیائی امور کے ماہرین ، ممتاز اسکالرز اور پاکستان اسٹڈی گروپ کی مرتب کردہ ہے ۔مقالے میں امریکی پالیسی سازوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پاکستان جیسے محل وقوع کے حامل ملک سے دوری کے متحمل نہیں ہوسکتے جس کا تین خطوں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے تعلق ہے ۔ جس کی چین اور ایران سے سرحدیں ملتی ہیں اور جو روس کے قریب واقع ہے ۔ رپورٹ کے بموجب پاکستان کو تنہا کرنا یا اس سے تعلقات میں بگاڑ لانا امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے۔