ٹی او آرز : ایک نکتے پر اختلاف بھی دور کیجئے

June 09, 2016

پاناما لیکس کے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے ضابطہ کار کے تعین کے لیے قائم کی جانے والی پارلیمانی کمیٹی دو ہفتے کی مقررہ مدت میں کسی اتفاق رائے پر نہیں پہنچ سکی تاہم بیرسٹر اعتزازاحسن کے مطابق گزشتہ روز اپوزیشن نے حکومت کے چار میں سے تین نکات من و عن تسلیم کرلیے ہیں جبکہ ایک نکتے میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔ حکومتی ٹیم نے اپوزیشن کی تجویز کردہ ترمیم پر غور کرنے کے لیے مزید وقت مانگا ہے لہٰذا کمیٹی کا آئندہ اجلاس اب جمعہ کو ہوگا۔حکومتی ٹیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ ہم بلاامتیاز سب کے احتساب کے لیے مستقل نظام بنانا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن کے بعض ارکان کا ہدف صرف وزیر اعظم کی ذات ہے جس کا پاناما پیپرز میں کوئی ذکر نہیں۔ شاہ محمود قریشی کا موقف ہے کہ اپوزیشن کے نکات صرف وزیر اعظم کے لیے نہیں بلکہ سب کا احتساب ان ہی نکات کے تحت ہوگا، تاہم آئندہ اجلاس میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو کمیٹی میں مزید بیٹھنا بے سود ہوگا ، مذاکرات ناکام ہوئے تو ہم عدالتوں میں جانے اور پرامن احتجاج کے جمہوری حق کو استعمال کرنے پر غور کریں گے۔اس تفصیل سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپوزیشن وزیر اعظم کو بھی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے احتساب اور عدالتی تحقیقات کے دائرے میں لانا چاہتی ہے جبکہ حکومتی ارکان اس کے لیے تیار نہیں۔بات اگر اتنی ہی ہے تواس پر حکومتی ارکان کی ہچکچاہٹ کی کوئی معقول وجہ دکھائی نہیں دیتی کیونکہ وزیر اعظم قوم سے اپنے خطاب میں خود پیشکش کرچکے ہیں کہ پاناما لیکس کی عدالتی تحقیقات کا آغاز ان کی ذات اور ان کے خاندان سے کیا جائے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ حقیقت ملحوظ رکھنی چاہیے کہ پارلیمانی کمیٹی کی ناکامی ملک میں افراتفری کا سبب بنے گی جبکہ ان دنوں علاقائی اور عالمی حالات بھی ہمارے لیے خاصے ناسازگار ہیں۔ اس بناء پرقومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ فریقین اپنے موقف میں لچک پیدا کریں، متفقہ نکات مرتب کرکے عدالتی کمیشن کے قیام کی راہ ہموار کریں ، تحقیقاتی عمل میں سب مکمل تعاون کریں اور پھرکمیشن کے فیصلوں کو سب کی جانب سے کسی ردّ وکد کے بغیر قبول کیا جائے۔