سوشل میڈیا اور ہماری نسل

November 28, 2022

رابطہ … مریم فیصل
جب سے میڈیا سے زیادہ سوشل میڈیا کا دور آیا ہے تب سے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ جو کنٹرول ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اسے کیسے کنٹرول کریں کیونکہ میڈیا کی تو ایک حد تھی ،ٹی وی لاؤنج کے نام پر گھر میں بنے کمرے میں رکھے ایک ڈبے تک جسے کچھ بھی دیکھنا ہے اسے بڑوں کی اجازت اورنگرانی میں دیکھنا پڑتا تھا پھر اس وقت تو میڈیا پر دکھائے جانے والے پروگرامز کی بھی حد تھی، صبح ایک گھنٹہ ،دوپہر میں مکمل بند، شام میں چند گھنٹے اور پھر مکمل بند اور پروگرامز بھی تمیز اور تہذیب کے دائرے میں تیار کئے جاتے تھے،تفریح کے نام پرآج کل کی طرح طوفان بد تمیز ی بالکل نہیں ہوتی تھی ، پھر آگیا یہ سوشل میڈیا جس نے نہ صرف ایک کمرے میں رکھے ڈبے والی قید سے آزادی دلائی بلکہ بڑوں سے بغیر اجازت کچھ بھی دیکھنے کی کھلی آزادی دے دی، اب گھر ہو یا گھر سے باہر ہر جگہ بالش بھر کی ڈیوائس ہر عمر کے فرد کے ہاتھ میں موجود ہے جس میں وہ جو بھی کچھ دیکھنا چاہے بغیر کسی کی اجازت لئے دیکھ سکتے ہیں ، والدین کو تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کے بچے کب کیا دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس چھوٹی سی ڈیوائس اور سوشل میڈیا نے کنٹرول پر سے کنٹرول ہی ختم کردیا ہے، اسی لئے معاشرے میں ایسے واقعات سننے میں آرہے ہیں کہ بچے کسی کھیل یا پروگرام سے متاثر ہوکر خود کو نقصان پہنچا رہے ہیں ،ایک توکم عمر بچے دوسرا اتنا زیادہ متاثر کن سوشل میڈیا، بچے خود کو بچائیں بھی تو کیسے لیکن مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی بھی تو نہیں لگائی جاسکتی صرف ایک عمر تک روکا جاسکتا ہے اور 18، 20 سال کے بچوں کو تو روکنا تقریبا ناممکن ہی ہے لیکن جو حالات ہیں ان میں والدین اور سرپرستوں کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے وہ صرف یہ کہہ کر خود کو تسلی نہیں دے سکتے کہ کیا کریں اب اس زمانے میں بچوں کو سوشل میڈیا سے دور کریں گے تو اپنے ساتھیوں میں بے وقوف لگیں گے ،اپنے بچوں کو ساتھیوں میں ہوشیار سمجھ دارثابت کرنے کے لئے انہیں آتش فشاں کے دہانے پر ہم نے بٹھا دیا ہے جو جب بھی پھٹتا ہے تباہی بربادی کے علاوہ کچھ نہیں دیتا ،ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ سوشل میڈیا بالکل استعمال کرنے ہی نہ دیا جائے کیونکہ پھر ’’ زمانے میں ترقی کی یہی تو چیز یں‘‘ہیں لیکن یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اب ہماری نگاہیں سخت ہو جائیں بچے خاص کر کم عمر بچے سوشل میڈیا کی کن کھیلوں کی سائٹس پر بہت مصروف ہیں وہاں وہ کن لوگوں کے ساتھ رابطے میں ہیں یہ سب ہماری کڑی نگرانی میں ہونا لازمی ہوگیا ہےکیونکہ کم عمر ویسے بھی خطرناک ’’عمر‘‘ ہے، اس میں بچوں کے جذبات احساسات الگ ہی مرحلہ پر ہوتے ہیں ۔ کم عمر بچہ یا بچی خود کو دنیا کی ایسی مخلوق سمجھتا ہے جس کے کندھوں پر بڑے ساری دنیا کا بوجھ لادنا چاہتے ہیں، تعلیم ہو یا تربیت یا دوسری مصروفیات اسے یہ سب ایسی مصیبتیں لگتی ہیں جو اس کے خیال میں صرف اسی کے لئے مختص کردی گئی ہیں، اسے لگتا ہے کہ والدین کی نظر میں لفظ تفریح اس کے لئے بنا ہی نہیں ہے، اس لئے والدین صرف اس کے ساتھ سختی سے ڈیل کرتے ہیں، اب اگر ایسے میں اسے سوشل میڈیا سے دور کردیا جائے تو نتیجہ بغاوت ہی نکلے گا، اس لئے اس معاملے کو سختی ،نرمی اور نگرانی کی ملاوٹ کے ساتھ ڈیل کرنا ہوگا تاکہ بچوں میں خود کو نقصان پہنچانے جیسے واقعات کا سدباب ممکن ہو۔