جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا کردار!

December 05, 2022

دنیا میں جہاں بھی جمہوریت مضبوط اور سیاسی استحکام ہے ، اس کا کریڈٹ وہاں کی سیاسی جماعتوں کو جاتا ہے ۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے ۔ پاکستان میں اگر جمہوریت مضبوط نہیں ہو سکی اور سیاسی استحکام نہیں آسکا تو میں اس کا ذمہ دار سیاسی جماعتوں کو گردانتا ہوں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی اس ناکامی کو قبول کرتے ہوئے تاریخی تجربات کی روشنی میں اپنے کردارکا ازسر نو تعین کرنا چاہئے ۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا ریٹائرمنٹ سے قبل دیا گیا ایک متنازع بیان آج کل موضوع بحث بنا ہوا ہے ، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ عسکری نہیں ، سیاسی ناکامی تھا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی آرمی چیف کو اس طرح کا بیان اور اس طرح کا فتویٰ نہیں دینا چاہئے تھا ، جبکہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے کچھ اور نتائج اخذ کئے گئے ہیں ۔ صرف پاکستان ہی نہیں ، دنیا بھر میں سیاسی قوتوں اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختیارات کی رسہ کشی ہوتی ہے ، جو اب بھی ہے ۔ مضبوط اور مستحکم جمہوری نظام جہاں بھی ہے ، وہ سیاسی قوتوں کی فتح ہے اور اس فتح کو برقرار رکھنا بھی ایک جہد مسلسل ہے ، جس میں سیاسی قوتوں کو نہ صرف تدبر سے کام لینا ہوتا ہے بلکہ اپنے اندر بھی جمہوری رویوں کو مضبوط کرنا ہوتا ہے ۔ مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اختلافات اور سیاسی لڑائیوں کو بھی جمہوری اصولوں کے دائرے میں رکھنا ہوتا ہے جیسے ہی سیاسی جماعتیں اس دائرے سے نکلتی ہیں ، وہ کمزور ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ اس رسہ کشی میں صرف ملکی سیاسی قوتیں اور اسٹیبلشمنٹ ہی شامل نہیں ہوتی بلکہ اس میں بین الاقوامی طاقتیں بھی ملوث ہوجاتی ہیں۔

اس مختصر کالم میں پاکستان کی تاریخ دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ اب یہ بات ہر ایک پر عیاں ہو چکی ہے کہ یہاں قیام پاکستان سے ہی سیاسی قوتیں بوجوہ اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکیں اور حقیقی اقتدار نو آبادیاتی خصوصیات کی حامل ملٹری اور سول بیورو کریسی کے ہاتھوں میں چلا گیا ۔ پاکستان بنانے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی قیادت کے پاس قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا ، یہاں تک کہ اس کے پاس یہ روڈ میپ بھی نہیں تھا کہ ملک میں کونسا نظام حکومت ہو گا ۔ مسلم لیگ کی قیادت ہی اندرونی سازشوں اور دھڑے بندیوں کا شکار ہو گئی اور ہر دھڑا اقتدار کی خاطر سول اور ملٹری بیورو کریسی کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہو گیا ۔ اس طرح بطور سیاسی جماعت مسلم لیگ نہ صرف کمزور بلکہ ختم ہو گئی اور ریاست پر اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہو گئی ۔ سیاست کو کمزور کرنے اور حقیقی سیاست دانوں کو سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کے خلاف جو تھوڑی بہت مزاحمت ہوئی ، اسے آسانی سے کچل دیا گیا ۔ اس پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے بیرونی طاقتوں پر انحصار کیا اور پاکستان کو ان بیرونی طاقتوں کے ایجنڈے کے تابع کر دیا ۔ خاص طورپر مغرب اور اس کے حواریوں پر انحصار کیا کیونکہ پاکستان سرد جنگ کے اس دور میں مکمل طور پر امریکی کیمپ میں چلا گیا تھا ۔ امریکہ نے پاکستان کو سیٹو اور سینٹو جیسے اپنے عالمی اور علاقائی دفاعی معاہدوں میں شامل کر لیا ، پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کیا اور اس خطے میں اپنے مفادات کے لئے پاکستا ن کو ایک جمہوری ریاست بنانے کی بجائے سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا ۔ تب سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کا منبع یہ پالیسی رہی کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی گریٹر گیم میں الجھا رہے اور سیاسی قوتیںاسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی رہیں ۔ اس صورت حال کے باوجود پاکستان میں سیاسی اور جمہوری تحریکیں ابھریں کیونکہ دنیا بھر میں قومی آزادی اور جمہوری تحریکوں کا زور تھا ، جن کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے ۔ ان تحریکوں سے سابقہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور موجودہ پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی بڑی سیاسی جماعتیں بن کر ابھریں ۔ 1970 ء کے عام انتخابات کے نتائج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی توقعات کے برخلاف تھے لیکن اس سے پہلے بہت کچھ ہو چکا تھا ، جس کا نتیجہ سقوطِ ڈھاکہ کی صورت میں نکلا ۔ باقی ماندہ پاکستان میں جب اسٹیبلشمنٹ نے یہ محسوس کیا کہ اب پہلے کی طرح سیاست کو نہیں روکا جا سکتا تو اس نے سیاست کا توڑ سیاست سے کیا اور کنگز پارٹیاں یا سیاسی اتحاد بنانے شروع کئے ۔ پیپلز پارٹی کے خلاف پاکستان قومی اتحاد ( پی این اے ) کی تشکیل اسی منصوبے کے تحت ہوئی یوں پاکستان میں سیاسی کشیدگی کا آغاز ہوا ، جو آج تک جاری ہے۔پی این اے کا کردار ختم ہوا تو جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ کے نام سے کئی جماعتیںبنائی گئیں اور بالآخر مسلم لیگ (ن) ایک بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری ۔ 1977 ء سے 1999ء تک سیاسی جماعتوں کی کشمکش عروج پر رہی ، جس سے اسٹیبلشمنٹ نے سیاست کو اپنے قابو میں کر لیا۔ایک مرحلہ ایسا بھی آیا ( انتہائی معذرت کے ساتھ ) ، جب پیپلز پارٹی بھی اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ میں اپنی لابنگ پر کام کرنے لگی ۔ پرویز مشرف کے دور میں جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مابین میثاق جمہوریت ہوا اور دونوں نے ماضی کی کشمکش کو اپنی غلطی تسلیم کیا تو ایک تیسری سیاسی قوت کی اسٹیبلشمنٹ کو ضرورت پڑی ۔ پاکستان تحریک انصاف کے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے سےسیاسی کشمکش پھر عروج پر پہنچ گئی ۔ اس کشمکش میں پھر ساری سیاسی قوتوں نے اقتدار کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوںنے اپنی سیاست، اپنے عوام اور اپنے کارکنوں پر انحصار کم کر دیاہے ۔ سیاسی طاقت کے عوامی مظاہرے صرف بارگیننگ پوزیشن حاصل کرنے کےلئے ہوتے ہیں ۔ سیاسی پیش قدمی کے لئے نہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی قوتیں تصادم کا راستہ ترک کریں ۔ ملک میں سیاسی استحکام لانے اور معاشی بحران کے خاتمے کے لئے کسی وسیع ایجنڈے یا چارٹر پر متفق ہوں ۔