جنوبی ایشیا میں توازن :عالمی امن کی ضرورت !

June 10, 2016

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ واشنگٹن کے دوران نئی دہلی اور وہائٹ ہائوس کے درمیان تعلقات بڑھنے کے اشاروں کا پاکستان سمیت ہر وہ ملک خیرمقدم کرتا ہے جس کے امریکہ سے دیرینہ تعلقات ہیں۔ پاکستان کے لئے بھارت اور امریکہ کے درمیان اچھے رابطوں کی اہمیت اس بنا پر بھی زیادہ ہے کہ تقسیم برصغیر کے وقت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر سمیت کئی امور متنازع چلے آرہے ہیں جنہیں طے کرنے کے لئے ایسے مشترکہ دوست کا ثالثی و مصالحتی کردار ضروری ہوتا ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان خلیج پاٹنے میں مدد دے سکے ۔ اس باب میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان کو سرد جنگ کے زمانے میں امریکی فوجی معاہدوں میں شمولیت پر نئی دہلی کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ دوسری جانب پشاور کے قریب واقع بڈھ پیر ہوائی اڈے پر امریکی عمل دخل کے باعث وہاں سے اڑنے والے امریکی جاسوس طیارے یو ٹو کے سوویت یونین میں گرائے جانے کے نتیجے میں پاکستان کوماسکو کی اس دھمکی کا سامنا کرنا پڑا کہ عالمی نقشے میں پشاور کے گرد سرخ دائرہ بنادیا گیا ہے۔ گردش وقت کا ایک رنگ یہ بھی ہے کہ 1950ء کی دہائی میں پاک امریکہ تعلقات کا ذکر طعنے کے طور پر کرنے والے ملک بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بدھ کے روز امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اعلان کیا کہ بھارت اور امریکہ دونوں فطری فوجی اتحادی ہیں اور بحرہند میں بھارت کی سرگرمیوں کا فائدہ امریکہ کو پہنچے گا۔واشنگٹن نئی دہلی تعلقات کے حوالے سے ایک عجیب مرحلہ 1962ء میں اس وقت سامنے آیا جب چین کے ساتھ بھارت کی سرحدی جھڑپیں شدید ہونے کے باعث واشنگٹن نے اسلام آباد کو آگاہ کیا کہ پاک امریکہ تعلقات کو دنیا کے سامنے انتہائی منفی انداز میں پیش کرنے والے ملک بھارت نے خود بھی امریکہ سے خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے اس لئے پاکستان کو اس مرحلے پر نئی دہلی کے لئے مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب برتنا چاہئے۔ اس تعاون کے صلے میں امریکہ نے پاک بھارت کشیدگی کی وجہ بننے والےتنازع کشمیر کے پرامن تصفیے کی یقین دہانی کرائی تھی مگر مسئلہ کشمیر نہ صرف آج تک حل نہیں ہوسکا بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی فلیش پوائنٹ بننے کے علاوہ بھارتی حکومت کے طرز عمل کے باعث پورے کرہ ارض کے امن کیلئے خطرے کی گھنٹی بھی بنا ہواہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس خواہش کا اظہار کیاہے کہ امریکہ سمیت جن ملکوں کی دوستی میں اسے بار بار قربانیاں دینا پڑی ہیں وہ برصغیر جنوبی ایشیا کے دیرینہ مسائل کے حل میں مدد دیں تاکہ اس خطے میں کشیدگی ختم کرکے عشروں سے دیکھے گئے ترقی و خوشحالی کے خوابوں کو عملی تعبیر دی جاسکے۔ اس حوالے سے امریکہ پر ، جو اس وقت واحد عالمی سپر پاور ہے، یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کی ضرورتوں کو ملحوظ رکھے اور ایسا تاثر اجاگر نہ ہونے دے جس سے امریکی اتحادی ہونے کا عملی ثبوت قربانیوں کی صورت میں دینے والے ملکوں سمیت دنیا بھر کے لوگوں کو امریکیوں کی دوستی کے حوالے سے منفی پیغام ملے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ہی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کےرکن بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے پلڑے میں امریکی حمایت کا وزن، بالخصوص پڑوسی ملکوں پر بالا دستی کی خواہش کے تحت دھونس دھمکی کے علاوہ فوج اور دہشت گردوں کے ذریعے مداخلت کا ریکارڈ رکھنے والے بھارت کے حق میں جانا خطے میں کئی سنگین مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رکھنے کی ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نقشے میں’’ نظرانداز‘‘ ملکوں کی بقا کی ضرورت نے روس اور چین کے بڑھتے ہوئے کردار کی اہمیت مزید اجاگر کر دی ہے۔ امریکہ تو ویسے بھی تسلیم کرتا ہے کہ باہمی تعلقات میں کئی نشیب و فراز کے باوجود اسلام آباد اور واشنگٹن دونوں ایک دوسرے کے لئے غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس باب میں پاکستان کے تحفظات سامنے رکھ کر فیصلے کئے جائیں۔