قیادت کے اوصاف اور وزیراعظم نواز شریف

June 10, 2016

وطن عزیز میں قومی قیادت کے حوالے سے بلاشبہ ایک نوع کا خلا رنج و غم کی حد تک پایا جاتا ہے حالانکہ اس کی وجوہ اظہر من الشمس ہیں۔ جہاں تک بانی پاکستان حضرت قائداعظم کا تعلق ہے ان کی قیادت اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے سے قطعاً دو آرا موجود نہیں ہیں اگر ہوں بھی تو ان کا اظہار نا ممکن ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ان کی قیادت میسر نہ ہوتی تو عین ممکن تھا کہ یہاں پارٹیشن ہوتا نہ یہ مملکتِ خدا داد معرض وجود میں آ پاتی۔ ان کے بعد ہمیں قیادت کا خلا اس لئے زیادہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی اس مملکت کو تھیو کریسی کی نذر کر دیا۔ ہم نے قائد کے بلند آدرشوں کا خیال کیا نہ اس کی وسعت نگاہی کو کسی اہمیت کے قابل جانا۔ ریاست کی تشکیل کے گورکھ دھندے اور تعمیر و ترقی کے تقاضوں میں واضح افتراق ہوتا ہے خود جناح صاحب اس فرق کو کتنا زیادہ سمجھتے تھے اس کا فوری ٹھوس ثبوت پہلی دستور ساز اسمبلی میں بحیثیت بابائے قوم ان کا تاریخی خطاب ہے۔ افسوس جب دستور سازی کا مرحلہ آیا تو اس منجھے ہوئے بزرگ قائد کی اصولی ہدایات کو کوڑے دان میں پھینک کر قدامت پرستوں کے زیر اثر ہم نے قطعی برعکس فیصلہ سنا دیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہماری سوسائٹی نظری کنفیوژن سے بھی آگے فکری کشمکش میں الجھ کر رہ گئی ہے جس کا بھر پور فائدہ تھرڈ امپائر نے ہمیشہ اٹھایا ہے جو اس تاک میں رہتا ہے کہ کب عوامی قیادت کے باہمی فاصلے بڑھیں اور وہ اپنے ’’لاڈلوں‘‘ کے ذریعے شب خون مارے وطنِ عزیز میں جن دو پاپولر عوامی قیادتوں نے اس تلخ حقیقت کا ادراک حاصل کیا ان میں سے ایک کو ہم نے دہشت گردوں کی نذر کر دیا اور دوسرے کو موقع پرست سیاسی اناڑیوں کے ذریعے قابو کرنا چاہتے ہیں اور کسی حد تک قابو کر چکے ہیں۔
آج ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم عارضہ قلب کے ہاتھوں مجبور ہو کر لندن کےاسپتال میں داخل ہیں جہاں ان کے چار بائی پاس ہوئے ہیں اور پوری قوم ان کے لئے دست بہ دعا ہے بلا تخصیص مسجدوں، مندروں اور گرجا گھروں میں نواز شریف کی درازی عمر کیلئے مناجات کی جا رہی ہیںپاکستان ہی نہیں بیرونِ ملک انڈیا، افغانستان، ترکی، مڈل ایسٹ یورپ اور امریکہ کی سیاسی قیادتیں بشمول اقوامِ متحدہ سب نوازشریف کیلئے تہنیتی پیغامات ارسال کر رہے ہیں۔ بالخصوص پاکستان کے غریب عوام ان کیلئے جن محبتوں کا اظہار کر رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے ان کیلئے وسیع تر عوامی حمایت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہے اس پس منظر میں دیکھتے ہوئے عرب نشریاتی ادارے ’’الجزیرہ‘‘ کے یہ الفاظ کتنے درد ناک ہیں۔ ’’پاکستان کے پاس نوازشریف کے علاوہ کوئی متبادل رہنما نہیں دھرنے میں زرداری کی حمایت حاصل نہ ہوتی اور وہ اختیارات اسٹیبلشمنٹ کو نہ دیتے ان کا تختہ الٹ دیا جاتا‘‘۔
ہمیں اعتراف ہے کہ وطنِ عزیز میں وزیراعظم نواز شریف کیلئے جہاں محبتوں کے پھول بکھیرنے والوں کی کمی نہیں ہے وہیں ان کے بہت سے نا قدین بھی موجود ہیں جو انہیں ایک کرپٹ لیڈر ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں اور اس کیلئے پاناما لیکس کو بنیاد بنایا جا رہا ہے حالانکہ ذاتی حیثیت میں ان کا نام پاناما لیکس میں موجود نہیں ہے جبکہ مخالفین کے اپنے دامن کرپشن کے حوالے سے صاف نہیں قانون کا اصول ہے کہ جو دوسروں کے خلاف واویلا کر رہا ہے اسے خود بھی تو کلین ہینڈ ہونا چاہئے۔اگر بچوں کے نام آتے ہیں تو انہیں قانون کے سامنے پیش ہونا پڑے گا جو کرے گا وہ بھرے گا ہر عاقل بالغ فرداپنے معاملات کا ذاتی طور پر ذمہ دار ہے بہر حال اب معاملہ پارلیمانی کمیشن کے پاس رہے یا جوڈیشل کمیشن کے پاس جائے اس کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ قوم کو یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ فیصلے کے پابند ہونگے کسی بھی شخص کو جرم ثابت ہونے سے پہلے تو سزا نہیں سنائی جا سکتی آج ہم نوازشریف کے خلاف پاناما لیکس کو پکڑے بیٹھے ہیں حالانکہ کرپشن چارجز کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو اس حمام میں سبھی ننگے ہیں اور نوازشریف کا بہرحال ایک طویل سیاسی کیریئر ہے وہ گزشتہ تیس سالوں سے ہمارے سامنے ہیں اگر وہ بہت بڑے پارسا یا مہاتما نہیں ہیں تو کرپٹ بھی نہیں ہیں انہوں نے اپنے سیاسی کیرئیر میں اگر غلطیاں کی ہیں تو ان غلطیوں سے سیکھا بھی بہت کچھ ہے اگر ان کی سیاسی اٹھان غیر جمہوری حکومت سے ہوئی تھی تو بھٹو صاحب کی سیاسی اٹھان بھی غیر جمہوری حکومتوں ہی سے ہوئی تھی تا ہم وہ سیاسی کامیابیاں حاصل کرکے بھی بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ کے ذہن و فکر سے ہی سوچتے رہے جبکہ نوازشریف بہت پہلے اسٹیبلشمنٹ کےہتھکنڈوں کو سمجھ گئے اور انہوں نے عوامی حاکمیت منوانے کیلئے کون کون سی کاوشیں نہیں کیں اسی جرم کی پاداش میں انہیں نہ صرف یہ کہ پابند سلاسل ہونا پڑا بلکہ جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی ان کے عوامی مینڈیٹ کو بوٹوں تلے کچلا گیا تو یہ نوازشریف ہی کی نہیں پاکستان کے کروڑوں عوام کی بھی تو ہین تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے وہ اپنے ملک کو بلندیوں پرلے جانا چاہتے ہیں وہ اپنی قوم کیلئے دردمندی رکھتے ہیں وہ وطن عزیز میں تعمیر و ترقی کا سمبل ہیں ہمیں وہ دن یاد ہے جب انہوں نے موٹروے کا منصوبہ شروع کیا ہم جناب اعتزاز احسن کے اسٹڈی روم میں ان کا انٹرویو کر رہے تھے تو چوہدری صاحب بولے کہ ’’آپ نوازشریف کی حمایت کر رہے ہیں وہ تو مغل شہزادہ ہے جنگل میں موٹروے شروع کر دی ہے حالانکہ اس کی کوئی ضرورت نہ تھی یہ تو سرمائے کا ضیاع ہے قوم کے مسائل کچھ اور ہیں یہ موٹروے کا کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں‘‘ ہم ماضی سے نکل کر آج کی صورتحال میں دیکھتے ہیں تو نوازشریف کے عزائم کو داد دینی پڑتی ہے۔ وہ وطنِ عزیز کے واحد سیاستدان ہیں جنہیں ملک کے گمبھیر داخلی و خارجی مسائل کا ادراک ہے وہ انڈیا دشمنی کو دوستی میں بدلنا چاہتے ہیں و ہ پاکستان کو ایک لبرل ترقی پسند ملک بنانا چاہتے ہیں وہ اندرونی شدت پسند جتھوں کو ختم کرتے ہوئے تمام ہمسایوں سے اچھے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں وہ افغانستان میں چھیڑ خانی نہیں چاہتے وہ دہشت گردوں کو قومی اثاثے خیال نہیں کرتے تو اس سب کے پیچھے ان کا پیہم تلخ تجربہ ہے وہ بہت سی تلخ حقیقتیں سمجھ چکے ہیں لیکن سیاسی اناڑی ملک کو اسی دلدل میں ڈالے رکھنا چاہتے ہیں تا کہ دوسروں کے مذموم مقاصد پورے ہوتے رہیں نوازشریف اس وقت پاکستان میں جمہوریت کا سمبل ہی نہیں، امن و سلامتی کا پیغام ہیں وہ وطن عزیز کا قیمتی اثاثہ اور قوم کی امید ہیں ۔انہیں چاہئے کہ وہ سیاست میں اپنا کوئی بہتر نائب ضرور تیار کریں جو ان کا رشتہ دار ہرگز نہیں ہونا چاہئے جمہوریت میں گدی نشینی کو ختم ہونا چاہئے۔