توبہ کی حقیقت اور اُس کے آداب

December 09, 2022

خورشید عالم قاسمی

(گزشتہ سے پیوستہ)

قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے: ’’اور یہ (ہدایت دیتاہے) کہ اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی مانگو اور پھر اس کی طرف رجوع کرو۔‘‘ (سورۂ ہود:۳) حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا کہ جب بندے سےگناہ سر زد ہوجائے تو وہ اسی حالت میں رہے۔ اللہ تعالیٰ اتنا رحیم وکریم ہے کہ ہدایت دیتا ہے کہ گناہ کے بعد بندہ ان سے معافی مانگے اور توبہ کرکے پاک وصاف ہوجائے۔

مفتی محمد شفیع صاحبؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب سے مغفرت اور معافی مانگا کریں اور توبہ کیا کریں۔ مغفرت کا تعلق پچھلے گناہوں سے ہے اور توبہ کا تعلق آئندہ ان کے قریب نہ جانے کے عہد سے ہے اور در حقیقت صحیح توبہ یہی ہے کہ پچھلے گناہوں پر نادم ہوکر اللہ تعالیٰ سے ان کی معافی طلب کرے اور آئندہ ان کے نہ کرنے کا پختہ عزم وارادہ کرے۔‘‘ (معارف القرآن،ج:۴، ص: ۵۸۶)

سچی توبہ کرکے دل کو زنگ آلود ہونے سے بچایئے:۔

انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگا دیا جاتا ہے، جب وہ توبہ واستغفار کرتا ہے، پھر اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے، مگر کوئی شخص توبہ نہ کرے، بلکہ مستقل گناہ کرتا رہے، تو وہ نقطہ بڑھتا چلا جاتاہے، یہاں تک کہ اس کا دل زنگ آلود ہوجاتا ہے، پھر حق قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے۔

اس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جب بھی ہم سے کوئی گناہ سرزدہوجائے تو ہمیں فوراً توبہ کرکے دل کو زنگ آلود ہونے سے بچانا چاہیے۔ رسولِ اکرم ﷺ کا فرمان ہے: ترجمہ: ’’بے شک، جب بندہ ایک گناہ کرتا ہے، تو ایک سیاہ نقطہ اس کے دل میں لگا دیا جاتا ہے، پھر جب وہ گناہ چھوڑ دیتا ہے اور استغفار وتوبہ کرتا ہے، تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے۔ اور (بغیر توبہ کیے ہوئے) دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس نقطہ میں زیادتی کردی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ پورے دل پر چھا جاتا ہے۔ (سنن ترمذی: ۳۳۳۴)

کثرت سے توبہ کرنے کا حکم:۔

رسول اکرمﷺ نے اپنی امت کو کثرت سے توبہ کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ ﷺایک حدیث میں توبہ کے حوالے سے اپنے عمل کا اظہار فرمارہے ہیں کہ آپ ﷺ دن بھر میں سو مرتبہ توبہ کرتے ۔ آپ ﷺ کی ذات مبارک گناہوں اور خطاؤں سے پاک تھی، آپﷺ معصوم ومغفور تھے، اس کے باوجود آپﷺ کثرت سے توبہ کرتے تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپﷺ کی امت یہ سیکھے کہ جب آپ ﷺمغفور ومعصوم ہوکر بھی اتنی کثرت سے توبہ کرتے ہیں تو ہمیں تو اور زیادہ توبہ واستغفار کرنا چاہیے، کیوں کہ ہم سے چھوٹے بڑے بے شمار گناہ شب وروز ہوتے رہتے ہیں۔

حدیث میں ہے: ’’اے لوگو! اللہ کے سامنے توبہ کرو، کیوں کہ میں دن بھر میں سو بار توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، : ۲۷۰۲) ایک دوسری روایت میں ہے: ’’اللہ کی قسم! میں ایک دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے سامنے استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، برقم: ۶۳۰۷)

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں دن بھر میں سو مرتبہ اور دوسری میں ستّر سے بھی زیادہ مرتبہ توبہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اس عدد کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ کےرسولﷺ صرف سو بار یا ستّر بار ہی توبہ کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺکثرت سے دن رات توبہ کرتے تھے۔ اس سے اُمت کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ بھی کثرت سے توبہ کریں۔

رات دن توبہ کا انتظار:۔

اللہ تعالیٰ اتنے سخی اور کریم ہیں کہ اپنے بندے کا انتظار کرتے ہیں کہ وہ گناہوں کی گٹھڑی لے کر، کب ہمارے در پر آئے اور توبہ کرے۔ آپ اتنے کریم و غفور ہیں کہ آپ ہر وقت اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار کرتے ہیں، چاہے وہ دن میں توبہ کریں یا رات میں توبہ کریں۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پروردگار کو خوشی ہوتی ہے۔ باری تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوجاتا اور اپنی غفاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بندے کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے ’’اللہ پاک رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کے گنہگار توبہ کرلیں اور اپنا ہاتھ دن میں پھیلاتا ہے، تاکہ رات کے گنہگار توبہ کرلیں، یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہونے لگے۔‘‘(صحیح مسلم، : ۲۷۵۹) یعنی قیامت کے قریب تک اللہ پاک ایسا کرتے رہیں گے۔اللہ تعالیٰ کا اپنے ہاتھ کو پھیلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اللہ بہت ہی سخی وکریم ہے اور اس کی رحمت بہت وسیع ہے۔ اللہ اتنا سخی ہے کہ بکثرت گناہوں کو معاف کرتا اور گناہوں کو معاف کرکے خوش ہوتا ہے۔

توبہ ،ایک پسندیدہ عمل:۔

توبہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ جو شخص گناہ اور معصیت کے بعد توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے: ترجمہ: ’’اگر تم گناہ کا ارتکاب نہ کرو تو اللہ تعالیٰ ایسی مخلوق پیدا فرمائے گا جو گناہ کا ارتکاب کرے گی، (پھر توبہ کرے گی اور) اللہ تعالیٰ انھیں معاف کردے گا۔‘‘(صحیح مسلم،: ۲۷۴۸)

ایک حدیث شریف میں توبہ کرنے والے کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کے ذمے کوئی گناہ ہو ہی نہیں۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ، ۴۲۵۰) اللہ پاک توبہ کرنے والے بندے سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں جس نے اپنا گم شدہ اونٹ پالیا ہو۔ رسولِ اکرم ﷺ فرماتے ہیں: اللہ پاک اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص کے مقابلے میں زیادہ خوش ہوتا ہے، جس نے اپنا اونٹ پالیا ہو، حالاں کہ اس نے اسے ایک چٹیل میدان میں گم کردیا تھا۔‘‘ (صحیح بخاری،۶۳۰۹)

اس تحریر کا اختتام ایک قرآنی آیت پر کیا جارہا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ اگر بندہ کبائر اور بڑے گناہوں سے خود کو بچا لیتا ہے تو اس کے چھوٹے گناہوں کو رحیم وکریم مولا خود ہی معاف کردے گا اور اس بندے کو ایک باعزت جگہ داخل کرے گا، اس باعزت جگہ کا مطلب جنت ہے۔

آیتِ کریمہ ملاحظہ فرمائیں: ترجمہ: ’’اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو، جن سے تمھیں روکا گیا ہے تو تمھاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔‘‘ (سورۃ النساء:۳۱) اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے اور جنت میں داخل فرمائے۔(آمین)

سب سے بہترین گھر…!

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں سب سے اچھا وہ گھر ہے، جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں سب سے برا وہ گھر ہے، جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو اورآپﷺ نے فرمایا: میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے اور آپﷺ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا۔(ابن ماجہ)