برف کی روپہلی چاندنی

December 17, 2022

لندن میں پہلے ہی غیر متوقع طور پر کافی برف باری ہوچکی ۔ کرسمس سے پہلے ہی شہر نے سفید لبادہ پہن لیا ہے ۔جہاں یہ بکھری ہوئی چاندی تقریبات کو چار چاند لگائے گی ،وہیں موسم میں ہونے والی تبدیلی سے کچھ رونق ماند بھی پڑسکتی ہے۔

کنگز کالج میں میرا کام تعطیلات اور پھر اس کے بعد کرسمس کی وجہ سے ابھی شروع نہیں ہوپایا ، بہت سی دیگر سرگرمیاں سوچ کیلئے دامن دل وا کئے ہوئے ہیں۔ کتابوں کی دکانیں ذوقِ طلب کو ابھارتی ہیں جہاں علم کی بے اندازہ دولت انسان کی منتظر ہوتی ہے ۔ کچھ گلیاں تو ایسی ہیں جن میں کھو جانے کو جی چاہتا ہے ۔ واپس اپنے دیس میں کتب بینی تو ایسی ختم ہوچکی جیسے مرزا کے الفاظ میں ،’’کبھی گویا کسی میں تھی ہی نہیں ۔‘‘ لیکن دنیا ایسے افراد سے خالی نہیں جو علم اور معلومات کے ذخیرے میں اضافہ کرنے کی عادت اپنائے ہوئے ہیں ۔ بسوں میں ، زیر زمین ریل میں ، ریستورانوں میں ، پبلک پارک میں ہر جگہ کوئی نہ کوئی دھوپ میں بنچ پر بیٹھ کر، کسی کونے میں کھڑا ہوکر ، کسی کا انتظار کرتے ہوئے ہاتھ میں کتاب لئے پڑھ رہا ہوتاہے ۔ جہاں تک ہمارا تعلق ، تو ہمیں یقین ہوچکا ہے کہ ہمیں مزید کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ۔ہم ہر چیز کے ماہر ہوچکے ہیں ، اور یہ ’’مہارت‘‘ دنیا میں بانٹنے کیلئے بے تاب ہیں ۔ اس کا انتہائی بھیانک اظہار ہر شام ٹی وی اسکرینوں پر ہوتا ہے جہاں نیم خواندہ ، بلکہ اکثر ناخواندہ ، افراد کم و بیش ہر شعبے کے ماہرین بنے علم اور معقولیت کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہوتے ہیں ۔

یہ وہ بنیادی وجہ ہوسکتی ہے کہ کیوں ہمارے لوگوں اور باقی دنیا کی صلاحیتوں اور نمو میں واضح طور پر فرق بڑھ رہا ہے ۔ ہم تو مستقبل میں بھی ترقی کا کم از کم معیار حاصل کرنے سے بہت فاصلے پر ہیں ۔ ہم کس طرف بڑھ رہے ہیں؟ اس کا جواب تلاش کرنا بھی مشکل نہیں ۔ پاکستان میں جس طرح ہم نے بہت منظم اور سفاکانہ طریقے سے معاملات بگاڑے ہیں ، وہ ان وجوہات کے نقیب ہیں جن کی وجہ سے ہم اس نہج کو پہنچے ہیں۔ جس جرائم کی دنیا کو ہم نے عشروں تک لاقانونیت کی بنیادوں پر تعمیر کیا ہے ،اس میں صحیح اور غلط کے درمیان ہر فرق مٹ چکا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے بغیر ماضی قریب کے مبینہ مجرموں اور مفروروں کی گود میں ضمانتیں پکے ہوئے پھل کی طرح گر رہی ہیں۔ اس کے بعد وہ اعلیٰ عدلیہ سے اپنے مقدمات نہایت سہولت سے ختم کرا رہے ہیں۔ اس لئے گھنائونے جرائم میں نامزد ہونے اور جیلوں میں سزا پوری کرنے کی بجائے اُنھیں ملک کے اعلیٰ ترین مناصب سے نوازا جارہا ہے ۔ ان کے رہنے کیلئے سابق دور میں کی گئی لوٹ مار سے بنائے گئے محل نما مکانات بھی ہیں۔

پاکستان میں اب یہ نیا چلن ہے، جسے احتساب بیورو اور دیگر تحقیقاتی ایجنسیوں پر مشتمل ریاستی مشین تقدیس کی سند بخش رہی ہے۔ عدلیہ کے ہاتھ ملک میں آمرانہ جڑوں کو مضبوط کرنے اور نظریہ ضرورت کو جواز بخشنے کا نشان رکھتے ہیں۔بیوروکریسی اپنی طاقت کے دائرہ کار کو بڑھانے کی خواہش کی اسیرہے۔ اس دوران جرائم سیاسی دنیا میں سرایت کرچکے ہیں۔ خوشامد ایک فن بن چکی ہے جس میں طاق ہونے والے پھل پاتے ہیں۔

یہ معاشرے کے مسلسل انحطاط پذیر ہونے کا سوال ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سماج کے مختلف عناصر میں جرائم کا سرایت کرنا ہے ، جب کہ دوسری وجہ جرائم کا تدارک کرنے والے اداروں کی غیر موجودگی ہے ۔ اب تو اس صورت حال کو سماج نے قبول کرلیا ہے۔

بظاہر توجو حالات ہیں، ان میں بہتر ی کا امکان عنقا ہے ۔ تبدیلی کو عملی شکل میں سامنے آنے کیلئے موجودہ ڈھانچے کا انہدام ضرور ی ہوچکا ۔ اس کیلئے کسی مسیحا کی آمد کی ضرورت ہے ، لیکن حقائق کی سنگلاخ زمین کا دفتر کچھ اور کہتا ہے ۔ تو کیا ہم بے دست وپا خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں ؟ یا دریا میں رہتے ہوئے وہی کچھ کرنے لگیں جو مگرمچھ کرتے ہیں ؟یہ ایک تکلیف دہ سوال ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس دیس میں رہنے والے خود سے یہی سوال کررہے ہوں گے ۔ جلد ہی کیا پتہ ان میں سے بہت سے وقت کے دھارے کے ساتھ بہنے پر خود کو آمادہ پائیں ۔ یہ افسوس ناک سہی ، خارج ازامکان نہیں۔

لیکن ٹھہریں، میرے اندر کا باغی، میرے من میں چھپا جنگجو ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار نہیں ، چاہے جتنے بھی کٹھن چیلنجز کیوں نہ ہوں۔ ہم زندگی کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں ۔ ہمارے سامنے ایک راستہ ہے ۔لیکن آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ راستے کا تعین ہم خود کریں۔ مسخ شدہ راہوں پر چلنے سے مزید گھاٹیاں ہماری منتظر ہوں گی۔ ہتھیار ڈالنے کا آپشن موجود ہے ۔ استحصالی قوتوں کی بڑھتی چلی آنے والی لہر کے راستے سے ہٹ جانے کا راستہ کھلا ہے۔ لیکن ملک اور اس کے لوگوں کیلئے نہیں۔

برف ہر طرف چاندی بکھیر رہی ہے ۔ سردی سہی ، لیکن اس سے امید اور خوشی کی کرنیں بھی منعکس ہورہی ہیں ۔ آئیے جرم کی سیاہی کو دھرتی کے سینے پر قبضہ جمانے کی اجازت دینے سے انکار کردیں ۔ ممکن ہے تباہی کے سوداگر پاکستانیوں کے خواب چرا لیں، ان کی خوشیوں کا سودا کرڈالیں ، لیکن پاکستانی عوام ضرور بیدار ہوں گے۔