سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے کیلئے فوری مذاکرات کریں: فافن

January 27, 2023

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ موجودہ انتخابی قانون فریم ورک کی کمزوریوں کو دور کرنے کیلئے فوری طور پر جامع مذاکرات شروع کریں۔

فافن کا کہنا ہے کہ جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو ایک جانب رکھ کر جمہوریت کی بالادستی اور تحفظ کیلئے آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کیلئے متحد نہیں ہوتیں ملک سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں رہے گا جس کے پہلے سے کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

موجودہ قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں صرف 7 ماہ باقی ہیں، ایسے میں سیاسی جماعتوں کے پاس یہ اہم موقع ہے کہ وہ فوری طور پر انتخابی فریم ورک میں ایسی ضروری تبدیلیاں کریں جو آزادانہ، منصفانہ، شفاف اور سب کی شمولیت والے انتخابات کی ضمانت دے سکیں۔

فافن کے خیال میں آئندہ انتخابات کے نتیجے میں سیاسی استحکام کیلئے ضروری ہے کہ 2014 میں انتخابی اصلاحات کیلئے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کی طرز پر ایک کثیر جماعتی کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کی نمائندگی شامل ہو۔

2014 والی کمیٹی گہری سیاسی تقسیم کے باوجود انتخابی اصلاحات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب رہی تھی جس کے نتیجے میں ایک متفقہ انتخابی قانون منظور کیا گیا تھا۔

الیکشنز ایکٹ 2017 نے الیکشن کمیشن کو نسبتاً زیادہ خود مختاری فراہم کی تھی اور انتخابی عمل میں کئی اہم اصلاحات متعارف کرائی تھیں لیکن کمیٹی کئی اہم انتخابی معاملات مثلاً نمائندگی کے مسائل کو حل کرنے، سیاست میں پیسے کے استعمال کی روک تھام اور انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے بارے میں نتیجہ خیز نہیں رہی تھی۔

سوشل میڈیا کا انتخابات میں بڑھتا ہوا کردار ان نئے مسائل میں سے ایک ہے جن کا پاکستان کے انتخابی نظام کو سامنا ہے۔

سوشل میڈیا نے انتخابات میں پیسے کے استعمال کی نئی راہیں کھول دی ہیں جن میں امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ کسی تیسرے فریق اور قانونی طور پر ممنوع ذرائع کی جانب سے سیاسی مہمّات کی مالی سرپرستی شامل ہیں۔

مزید برآں، سیاسی جماعتوں نے ابھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کیلئے سہولت فراہم کرنے کا طریقہ کار بھی طے کرنا ہے جس میں بیرون ملک آباد ووٹروں کو پوسٹل بیلٹ کی سہولت فراہم کرنا یا ان کیلئے نشستیں مختص کرنا شامل ہوسکتا ہے۔

اسی طرح انتخابی قانون میں درکار ایک اور نہایت اہم تبدیلی الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل ان کی لازمی جانچ پڑتال کرنے کا پابند بنانا ہوگا تاکہ انتخابی نتائج پر اعتماد بڑھے اور ان سے متعلق مقدمات میں کمی لائی جاسکے۔

انتخابی اصلاحات کیلئے ٹھوس اقدامات اس وعدے کو پورا کرنے کیلئے بھی ضروری ہیں جو موجودہ اتحادی حکومت کے رہنماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی سابق وزیراعظم پر عدم اعتماد کے خلاف رولنگ سے متعلق لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران کیا گیا تھا۔

7 اپریل 2022 کو مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے عدالت عظمیٰ کے سامنے عہد کیا تھا کہ وہ عام انتخابات سے قبل انتخابی اصلاحات متعارف کرائیں گے لیکن موجودہ حکومت نے ابھی تک انتخابی قانون میں اوورسیز ووٹنگ (سیکشن 94) اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (سیکشن 103) کی اصل دفعات کو بحال کرنے کے علاوہ اصلاحات سے متعلق پارلیمانی سطح پر کوئی پیشرفت نہیں کی ہے۔

فافن کا خیال ہے کہ انتخابی اصلاحات پر سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات سے ملک میں سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور یہ پرامن انتخابات کے انعقاد کیلئے بھی معاون ثابت ہوں گے۔

آئینی طور پر عام انتخابات رواں سال 11 اکتوبر تک ہونا ہیں تا وقت یہ کہ اس بارے میں کوئی سیاسی سمجھوتہ ہوجائے۔

ایسے میں فافن کا خیال ہے کہ الیکشنز ترمیمی بل 2020 اور اس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کی جانب سے دی گئی سفارشات کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو چند مشترکہ اور نہایت ضروری اصلاحات پر بھی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے جن میں درج ذیل اہم موضوعات شامل ہیں:

سیاسی مالیات کی موثر نگرانی:
سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں پیسے کے استعمال سے متعلق الیکشنز ایکٹ 2017 کی دفعات کو مؤثر بنانے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

موجودہ قانون میں انتخابی اخراجات کی نگرانی نہ ہونے کے مترادف ہے۔ یہ نگرانی تبھی مؤثر ہوسکتی ہے کہ جب قانون میں:

1- انتخابی اخراجات کی واضح تعریف شامل کی جائے جو اس مدت کا تعین بھی کرے کہ جس کے دوران کیے گئے اخراجات انتخابی اخراجات شمار ہوں گے۔

2- امیدواروں کے حامیوں کی جانب سے امیدوار کی مہم کیلئے کیے گئے اخراجات کو غیر مشروط طور پر امیدوار کی جانب سے کیا گیا خرچ شمار کیا جائے۔

3- الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواروں کے انتخابی اخراجات کی جانچ پڑتال کو لازمی قرار دیا جائے۔

4- انتخابی اخراجات کے گوشواروں میں غلط معلومات فراہم کرنے یا معلومات چھپانے پر سزا کا تعین کیا جائے۔

5- سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم پر کیے جانے والے اخراجات کیلئے حد مقرر کی جائے۔

6- امیدواروں، سیاسی جماعتوں یا ان کے حامیوں کی طرف سے آن لائن ذرائع اور سوشل میڈیا کے ذریعے انتخابی مہم پر کیے گئے اخراجات کو منضبط کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔

مجوزہ کمیٹی کو الیکشنز ایکٹ 2017 کے متعلقہ سیکشنز خاص طور پر سیکشن 136 اور 211 کو جامع بنانے پر غور کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ یہ سیکشن امیدواروں کے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابی مہم پر کیے اخراجات پر الیکشن کمیشن کی کارروائی سے متعلق ہیں۔

سوشل میڈیا کی انتخاب سے متعلق ریگولیشن:
الیکشن کے عمل اور نتائج کی ساکھ کیلئے ایک اور بڑا چیلنج آن لائن سیاسی مہمات، اشتہارات، فنڈ ریزنگ اور حامیوں کی جانب سے دیے گئے عطیات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے قانونی فریم ورک کی عدم موجودگی ہے۔

انتخابات سے متعلق جعلی خبریں، نفرت انگیز تقاریر، غلط معلومات، حقائق کے برعکس دعوے اور غلط بیانی دنیا بھر میں ایک اہم مسئلہ بن کر ابھرے ہیں۔

ان تمام عوامل کے الیکشن کے عمل اور ووٹروں کی رائے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

پاکستان کا موجودہ انتخابی قانون، قواعد و ضوابط اور انتخابی اخراجات کی مقررہ حدود سوشل میڈیا پر انتخابی مہمات اور اس پر ملک اور بیرون ملک سے کیے گئے اخراجات کے حوالے سے ناکافی ہیں۔

اگر سیاسی جماعتیں سوشل میڈیا پر ضوابط کی حدود اور طریقہ کار پر متفق نہیں ہوتیں تو آئندہ انتخابات ایسے پیچیدہ تنازعات کا سبب بن سکتے ہیں جن کی پاکستان کی انتخابی تاریخ میں نظیر نہیں ملے گی۔

انتخابی نتائج کی بہتر جانچ پڑتال:
فافن سمجھتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو الیکشنز ایکٹ 2017 میں ترامیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو انتخابی نتائج کے انتظام سے متعلق زیادہ بااختیار بنانا چاہیے۔

فی الوقت پولنگ اسٹیشن میں ووٹوں کی گنتی سے لے کر حلقہ جاتی انتخابی نتائج کی تیاری تک کا عمل وہ عملہ سرانجام دے رہا ہوتا ہے جو حکومتی محکموں اور عدلیہ سے مستعار لیا گیا ہوتا ہے۔

اس ضمن میں انتخابی نتائج پر پیدا ہونے والے تنازعات کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ قانون میں ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ کسی بھی حلقے میں جیتنے والے امیدوار کے نوٹیفکیشن سے قبل اس حلقے کی انتخابی دستاویزات اور فارموں کی جانچ پڑتال کرے۔

آئین اور انتخابی قانون کی روح کے مطابق عوامی منشا کے مطابق حکومت سازی کیلئے ایسے انتخابات ضروری ہیں جن کی ساکھ پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور انتخابی عمل و نتائج کی ساکھ کا محافظ الیکشن کمیشن ہے۔

فافن نے موجودہ قانون اور قواعد کی بنیاد پر انتخابی نتائج کی جامع جانچ پڑتال کیلئے ایک تفصیلی طریقہ کار تیار کیا ہے جسے جلد ہی جاری کیا جائے گا۔

بیرون ملک ووٹنگ کی سہولت:
بیرون ملک ووٹنگ کے طریقہ کار پر اختلافات کے باوجود تمام بڑی سیاسی جماعتیں بیرون ملک مقیم ووٹروں کو بیرون ملک ووٹ ڈالنے کیلئے سہولت فراہم کرنے کے خیال کی حامی رہی ہیں۔

سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں میں بھی پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک مقیم شہریوں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے کے قابل بنانے کیلئے ایک "محفوظ، قابل بھروسہ اور موثر" طریقہ کار مرتب کریں۔

بیرون ملک ووٹنگ اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اسمبلیوں میں نمائندگی کیلئے سیاسی اتفاقِ رائے درکار ہے۔

قابل اعتماد تکنیکی حل کی عدم موجودگی میں بیرون ملک مقیم پاکستانی ووٹروں کو پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔

مزید برآں، سیاسی جماعتوں کو معاشی وجوہات کی بناء پر اپنے علاقوں کو چھوڑ کر دیگر صوبوں یا اضلاع میں مقیم ووٹروں کو بھی پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

خواتین کیلئے مخصوص نشستوں پر نمائندگی:
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین محض 27 فیصد اضلاع کی نمائندگی کرتی ہیں جبکہ دو تہائی سے زائد اضلاع کی ان نشستوں پر کوئی نمائندگی نہیں ہے۔

خواتین کیلئے مختص نشستوں کے صوبائی کوٹے کی انتظامی ڈویژنوں کے درمیان تقسیم سے اس جغرافیائی عدم توازن کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔