پون صدی کا سفر

January 29, 2023

پون صدی سے دائرے کا سفر جاری ہے اور ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ بس یہ آخری پڑائو ہے اور اس جاں گسل سفر کا اگلا سنگ میل عبور ہوتے ہی منزل قدم چومنے خود دست بستہ سامنے کھڑی ہو گی لیکن ہر اگلے سنگ میل پہ سفر کا فاصلہ کم ہونے کی بجائے گم ہو جاتا ہے اور مسافروں کی تھکاوٹ شدت پکڑتی جاتی ہے، طرح طرح کے تجربات کرنے والے کچھ ماہرین تو آسودہ خاک ہو چکے اور کچھ گوشہ گمنامی میں فرشتہ اجل کے انتظار میں پڑے ہیں‘ کچھ جلا وطن ہو گئے اور کچھ پھندوںپہ جھول گئے‘ کسی کی زندہ دلی کے ڈنکے بجے تو کوئی مذہب کی دیوار کے سائے میں اقتدار کی ڈور کھینچتا رہا‘ لیکن قائداعظم محمد علی جناح کے سانحہ ارتحال کے فوری بعد سے ہی شروع ہونے والی غلطیوں‘ ناتجربہ کاریوں اور حماقتوں سے شاید کوئی رتی برابر سیکھنے کو تیار نہیں ہر کسی نے اپنی اپنی لیاقت کے مطابق ملک و قوم کی خدمت کی، تجربات کی اس سرزمین کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں تیرہ تیرہ ماہ بھی وزرائے اعظم رہے اورپورے تیرہ دن بھی‘نوے روز میں الیکشن کرانے آنے والے تین تین ماہ کے نگراں وزرائے اعظم اور ہر چند برس بعد احتساب کیلئے طلوع ہونے والوں کی داستان الگ ہے۔ کرپشن اور سیاستدانوں کی حماقتوں کو بنیاد بنا کر ملک وملت کے سیاہ و سفید کی قسمت بن جانے والے آمروں کی ذہانت وفطانت تک، کیا کچھ اس ملک اور عوام کو میسر نہیں رہا لیکن جانے یہ کن کرموں کا بھوگ ہے کہ سوگ، ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، درماندہ وخستہ حال قوم حکمرانوں کی ناکردہ کاریوں اور غلط فیصلوں کی مسلسل سزا بھگت رہی ہے، ماضی کے غلط فیصلوں سے سبق سیکھنے کے آثار نظر آتے ہیں نہ موجودہ غلطیوں کو سدھارنے کی تڑپ۔ نئے تجربات غلط ہو سکتے ہیں یہ توعین ممکن ہے لیکن اتنے برے ثابت ہو سکتے ہیں یہ شاید کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا، نئے کھلاڑی ملکی معیشت کی لٹیا ڈبو دیں گے اور تجربہ کار رہی سہی کسر ایسے نکالیں گے کہ الامان والحفیظ۔ یہ بھی گویا کسی انہونی سے کم نہیں۔

ماضی کی سیاسی مخاصمت کے عروج کے زمانے میں بنائے گئے مقدمات جھوٹے تھے یا سچے‘ کس نے کتنا کھایا، کتنا کمایا اور اس کے بدلے میں کیا کیا گنوایا یہ نوے کی دہائی کی باتیں ہیں‘ تئیس کے موضوعات مختلف ہیں‘ کس نے بنائے، کیوں بنائے، ان میں کتنی سچائی تھی اور کتنے مقدمات صرف تخلیقی اذہان کی کرشمہ سازی کا شاخسانہ تھے‘ یہ سوال بھی فرسودہ ہیں اور ان سوالات کا بھی وقت نہیں کہ کتنے سرکاری کھوجیوں نے مال غنیم کے آثار تلاش کرتے کرتے مزید کتنی چوری کی‘ توشہ خانے

سے جم خانوں تک کی داستانوں پر گفتگو بھی عبث ہے‘ سچائی یہ ہے کہ ماضی میں دست وگریباں رہنے والے اب یک جان ہیں اور موجودہ حریف کب حلیف بن جائیں اس عدت کی کوئی مدت معین نہیں‘ ملک اور قوم کا وقت ضائع کرنے اور تاریخ دہراتے ہوئے نئی مقدمہ بازیوں اور گرفتاریوں، فتح مکہ کی طرز پر عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے نو منتخب حکومت کا سب سے بڑا امتحان مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنا اور معیشت کو پٹرے سے اتار کر پٹری پر ڈالنا ہے، اگر حکومت اس میں کامیاب ہو گئی تو اس کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے بصورت دیگر موروثی سیاست کے دروازے پھر طویل عرصے کیلئے بھی بند ہو سکتے ہیں کیونکہ گھر میں آگ لگی ہو تو کھیل تماشہ نہیں ہوتا۔ عہد عمرانیہ میں وزرائے خزانہ‘ معاشی ماہرین‘ گورنراسٹیٹ بینک اور ایف بی آر کے سربراہان بار بار تبدیل کرنے کے باوجود جانے کیوں معیشت مستحکم ہونے سے گریزاں رہی لیکن دھڑن تختے کے بعد وفاق میں بہتری کی توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں، پھر جانے کیوں مفتاح اسماعیل کے ہاتھ بدترین معاشی حالات کی باگ ڈور دے کر عمران خان کی اسد عمر والی غلطی دہرائی گئی، وہ ہر ہفتہ پندرہ روز بعد ٹافی کی بجائے قوم کو کڑوی گولی دیتے رہے‘ پھر ڈالر کو نکیل ڈالنےڈار اترے‘ اسحاق ڈار کے معاشی ویژن سے عوام الناس سے لے کر تاجروں اور صنعتکاروں تک کو اچھی توقعات تھیں لیکن اب کے بار جانے کیوں ڈالر ان کے قد سے بھی اونچا اڑ رہا ہے حالانکہ ماضی میں وہ بصد افتخار ڈالر کی قدر 105روپے تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ بے شک کہا جاتا رہے کہ پچھلے پونے چار برس میں ملک کو معاشی طور پر بہت پیچھے دھکیل دیا گیا لیکن مرض کا علاج تو موجودہ ڈاکٹروں کی ذمہ داری ہے، ہمارے ہر عہد کے ماہرین کے پاس ہمیشہ ایک ہی علاج رہا ہے کہ مرتی ہوئی معیشت کی رگوں میں بجلی، گیس، پٹرول، موبائل فون مہنگے کر کے اور نت نئے ٹیکس لگا کر ڈرپ لگائی جائے‘ کسی حکومت نے دکھاوے کے چند اقدامات کے علاوہ حقیقی طور پر کبھی اپنے اخراجات کم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، توانائی کے مسائل حل کر کے صنعتی پیداوار بڑھائے بغیر کوئی چارہ کار نہیں، برآمدات کا فروغ ہی معیشت کو سہار سکتا ہے، عمران خان نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مراعات دے کر کم ازکم اس شعبے میں کاروبار کو زندہ رکھا تھا اب نئی پالیسیوں سے خوفزدہ سرمایہ کار ہاتھ کھینچ کے بیٹھ گئے ہیں‘ بینک ٹرانزیکشنز پر ایک بار پھر ٹیکس عائد کرنے کے فیصلے بینکوں پر اعتماد کے فقدان اور ناجائز ذرائع کی حوصلہ افزائی کا باعث بنیں گے، معاشی سرگرمیوں کا زیادہ تر انحصار ڈالر اور سونے کی خرید و فروخت تک رہ گیا ہے، سیاسی معاملات کے ساتھ ساتھ معیشت خصوصی توجہ کی متقاضی ہے کیونکہ دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ قوم کو جب نواز شریف کی سیاسی بصیرت‘ آصف علی زرداری کا تدبر اور مولانا فضل الرحمن کی فہم وفراست یکساں طور پرمیسر ہے تو ملکی معیشت اور عوامی زندگی پر بھی اس کے اثرات نظر آنے چاہئیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)