وقت کم ہے اور مقابلہ سخت

January 29, 2023

اور پھر وقت بدل گیا مخلص دوستوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑ دی ، جس سے ان کی اسلام آباد کے بعد لاہور اور پشاور کی پناہ گاہیں بھی ختم ہوگئی ہیں، فواد چوہدری کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ہے کہ اگلے تین ماہ میں تحریک انصاف کے ساتھ کیا کیا ہوسکتا ہے ، بہرحال اپنے دور حکومت میں ن لیگ کی پوری قیادت کو سچے اور جھوٹے مقدمات میں جیل میں ڈالنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان صرف اس خوف سے کہ شاید انھیں گرفتار کرلیا جائے ،روزانہ ہزاروں کارکنوں کو اپنے گھر کے باہر پہرہ دینے کے لئے جمع کرنے لگے ہیں ،اپنے دور حکومت میں عمران خان تقریباََ پوری ن لیگی قیادت کو جیلوں میں ڈال چکے تھے لیکن وہاں سے کبھی اتنی چیخ و پکار اور آہ بکا کی آوازیں نہیں آئیں جتنی اب عمران خان کی جانب سے صرف اس شبہ پر کہ انھیں گرفتار کیا جاسکتا ہے سنائی دے رہی ہیں ۔ غرض صرف ان کی ممکنہ گرفتاری ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف کے رہنما اعظم خان سواتی یا فواد چوہدری کی گرفتاری کو بھی وہ ملک کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کےمترادف قرار دےر ہے ہیں حالانکہ اعظم خان سواتی تو ببانگ دہل ریاستی اداروں کو دھمکیاں دینے کے الزامات پر گرفتار ہوئے ، ، فواد چوہدری کی گرفتاری کو غلط کہنے والے پی ٹی آئی رہنما نہال ہاشمی کی گرفتاری پر تالیاں بجا رہے تھے حالانکہ دونوں کی تقاریر ایک ہی جیسی تھیں ، اس وقت تحریک انصاف کی پالیسی ایسی ہے کہ چھوٹی سی گرفتاری پر بھی اتنا واویلا کردو کہ ریاستی ادارے کسی بڑی گرفتاری کی ہمت ہی نہ کرسکیں حالانکہ اپنے دور حکومت میں عمران خان نے پہلے میاں نواز شریف کو جیل میں ڈالا پھر ان پر سیاسی دبائو بڑھانے کے لئے ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف کو اسی جیل میں قید رکھا گیا جس میں ان کے والد قید تھے ،جیل میںان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا جس کی روداد وہ خود سناچکی ہیں دونوں رہنمائوں نے اپنی قید صبر و شکر کے ساتھ کاٹی ، پھر ن لیگ کو توڑنے کے لئےشاہد خاقان عباسی پر محض اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگا کر جیل میں ڈالا گیا ، احسن اقبال کو اپنے علاقے میں کھیل کا میدان تعمیر کرنے پر دس ماہ جیل میں ڈالا گیا ، خواجہ آصف جیل میں رہے ، خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کو جیل میں ڈالا گیا ، میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو جیل میں ڈلا گیا پھر پنجاب میںدیگر لیگی رہنمائوںکو قید کیا گیا ،غرض عمران خان کا ساڑھے تین سالہ دور سیاسی انتقام کا بدترین دور قرار دیا جارہا ہے ،جبکہ ملک کی معیشت کا دیوالیہ بھی تحریک انصاف کے دور میںہوا ہے جس کی کئی دفعہ عمران خان بھی تصدیق کرچکے ہیں،تاہم ملک میں اب سیاست کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے ، مریم نواز شریف جنھوںنے اپنے والد میاں نواز شریف کے نقش قدم پر چلنے کا فیصلہ کیا اور پھر مختصر عرصے میں اپنے آپ کو ایک قومی لیڈر کے طور پر منوایا ، ان کی تقاریر سننے کیلئے لاکھوں کا مجمع جمع ہونے لگا ، اپنی سیاسی زندگی میں انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی دیکھیں ، سیاسی جلا وطنی بھی دیکھی ، اب جبکہ میاں شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن ملک کو بچانے کیلئے جو مشکل فیصلے ان کی حکومت نے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کئےہیں جس کا فائدہ تحریک انصاف نے اٹھا کر اس مہنگائی کی تمام ذمہ داری ن لیگ پر عائد کی ہے اس سے ن لیگ کی مقبولیت میں خاصی کمی نظر آئی ہے، اب مریم نواز نئے اور زیادہ بااختیار عہدے کے ساتھ ملک واپس آرہی ہیں ان پر اب ن لیگ کی عوام میں گرتی ہوئی ساتھ کو بحال کرنے اور پارٹی کو دوبارہ مقبول بنانے کی ذمہ داری ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی مقبولیت اور کامیاب بیانئے کے مقابلے میں مریم نواز شریف کس طرح اپنی پارٹی کو عوام کے دلوں میں دوبارہ جگہ دلا پاتی ہیں ، کس طرح ناراض اور سائیڈ لائن کئےگئے رہنمائوں اور کارکنوں کو پارٹی میں جائز مقام دلاپاتی ہیں اور کس طرح ن لیگ کودوبارہ ملک کی سب سے مقبول جماعت بنا پاتی ہے ، انتخابات نزدیک ہیں یعنی وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ۔