گیس کمپریسر

February 05, 2023

نادیہ ناز غوری، کراچی

’’امّی! بہت بھوک لگی ہے۔‘‘ آٹھ سالہ فضا نے ماں سے کہا۔ ’’بیٹا! بس تھوڑی دیر میں کھانا لگا دیتی ہوں۔‘‘ دیگچی میں چمچہ ہلاتی شاذیہ نے بچّی کو بہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’امّی آپ کب سے یہی کہہ رہی ہیں۔ آخر کھانا کب تیار ہوگا۔ بھوک سے میرے سر میں درد ہونے لگا ہے۔‘‘ فضا نے واقعی اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام رکھا تھا۔ ’’بس میرا بچّہ! تھوڑا سا انتظار اور …‘‘ شاذیہ نے اُس کے معصوم چہرے کی طرف بہت پیار سے دیکھ کےمزید تیزی سے چمچہ چلاتے ہوئے کہا۔ ’’فضا بیٹا! یہ دیکھو، یہ مَیں نے آپ کے لیے کتنا پیارا جہاز بنایا ہے۔‘‘ نعمان نے بھی بیٹی کی توجّہ بٹانے کی کوشش کی۔

جب سے موسمِ سرما کا آغاز ہوا تھا، نعمان اور شاذیہ کے گھر، کم و بیش روزانہ کی یہی کہانی تھی۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ ہورہی تھی۔ صبح نو سےرات دس بجے تک گیس نہیں ہوتی تھی یا اتنی کم ہوتی کہ کھانا گھنٹوں میں بمشکل تیار ہو پاتا، کیوں کہ محلے کے ہر دوسرے گھر نے گیس کمپریسر جو لگوا لیے تھے، جب کہ نعمان کی اِتنی آمدنی نہ تھی۔ ہوش رُبا منہگائی میں شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے شاذیہ محلے داروں کے کپڑے سلائی کرتی تھی۔ پھر بھی گھر کے کرائے، بجلی گیس کے بل، پانچ بچّوں کی اسکول فیس، گھر کے راشن اور دیگر اخراجات کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں تھا کہ سلینڈر گیس یا گیس کمپریسر مشین کا اضافی خرچ برداشت کرتے یا روزانہ بازار کا منہگا کھانا کھاتے۔

سو، غریب والدین روزانہ ہی بچّوں کو بہلانے کی کوشش کرتے، لیکن اب نعمان اور شاذیہ سے بچّوں کی یہ تکلیف دیکھی نہیں جاتی تھی۔ بالآخر دونوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ لوگ بھی کسی بھی طرح گیس کمپریسر لے لیں گے۔ شاذیہ نے پہلے سے زیادہ سلائی کے کپڑے پکڑے، نعمان نے اِدھر اُدھر سے کچھ قرض لیا اور دیگر محلے والوں کی طرح کمپریسر لگوا ہی لیا تاکہ بچوں کو کم ازکم بھوک کا کرب تو برداشت نہ کرنا پڑے۔ اور پھر اُس رات بچوں نے وقت پر کھانا کھایا تو وہ دونوں بےحد خوش تھے۔ البتہ شاذیہ پھر رات گئے تک سلائی مشین پر بیٹھی رہی۔

سب سے آخر میں سونے کےبعد بھی اگلے دن حسبِ معمول شاذیہ صبحِ صادق کے وقت اُٹھی۔ شوہر اور بچّے بےخبر پڑے سو رہے تھے۔ شاذیہ کچن میں گئی، تو دیکھا کہ چولھے سے گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ اُس نے فوراًپنکھا کھول دیا۔ مگر…پنکھا کُھلتے ہی ایک زوردار دھماکا ہوا اور چاروں طرف سے آگ کے شعلے بلند ہونےلگے۔ کچن کی چھت اُڑ کر پڑوس کےگھر جا پڑی۔ بدحواس جھلستی شاذیہ پر بس ایک ہی دُھن سوار تھی کہ کسی طرح شوہر اور بچّے گھر سے باہر نکل جائیں۔

کوئی سات بجےکے قریب فائر بریگیڈ کی دو گاڑیاں آگ بجھانے آئیں، مگر تب تک نعمان شاذیہ اور بچّے بُری طرح جھلس چُکے تھے۔ محلےداروں نے اُنھیں سول اسپتال کے برنس سینٹر پہنچایا۔ جہاں اگلے دن شاذیہ نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دَم توڑ دیا۔ بُری طرح جھلسے ہوئےنعمان کو محلے داروں نے وہیل چیئر پر بٹھا کر شاذیہ کا آخری دیدار کروایا۔

’’افسوس! پانچوں بچّے ماں سے محروم ہوگئے۔ سب سے چھوٹا تو صرف پانچ سال کا ہے‘‘۔ ’’ہاں، بچّوں اور نعمان کی حالت بھی کافی تشویش ناک ہے۔ اگر سرکاری گیس ملتی، تو گھر گھر میں گیس کمپریسر نہ لگتا۔ نہ ہی شاذیہ اور نعمان گیس کمپریسر لگواتے۔ اِن معصوم، بےگناہوں کی موت کا ذمّےدار کون ہے؟ یہ ہم محلّے والوں کی خودغرضی ہےیا حکومتِ وقت کی نااہلی اور دولت کی ہوس؟ عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے اِن حکم رانوں کو کیا خبر کہ بھوک کی تکلیف کیا ہوتی ہے۔

اِس گیس لوڈ شیڈنگ سے کتنی معصوم جانیں لقمۂ اجل بن ہو رہی ہیں۔‘‘ ابھی محلّے کے دو معزّز افراد یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ فضا میں اذان کی آواز گونجنے لگی اور شاذیہ کے بھائی دہکتی سُرخ آنکھوں کے ساتھ بہن کی میّت کو کندھا دے کر قبرستان کی جانب روانہ ہوگئے۔