اسلامی معاشرت میں ماں ایک عظیم اور معتبر مقام کی حامل ہے۔ اس کا کردار نہ صرف فرد کی فکری، روحانی اور اخلاقی تربیت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کے لیے بھی ایک سنگِ میل ہے۔اسلامی تہذیب و احکامات میں ماں کی فضیلت و اہمیت سے نہ صرف اِس کا بلند مقام ظاہر ہوتا ہے، بلکہ ہمیں اس کی فکری بصیرت اور اس کے کردار کی تہذیبی حیثیت کا بھی شعور حاصل ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ماں کے کردار کو اِتنی عظمت و تکریم عطا کی ہے، جس کی کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ دنیا اِس وقت انقلابات کی زَد میں ہے اور ایسا ہی ایک سائنسی انقلاب’’آرٹیفیشل وومب‘‘ کی صُورت سامنے آیا ہے۔’’آرٹیفیشل وومب‘‘ کیا ہے اور اِس کے ماں کے کردار پر کیا اثرات مرتّب ہوں گے، آئیے، اِسے ذرا تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
’’مصنوعی رحم‘‘ ایک جدید بائیو میڈیکل ٹیکنالوجی ہے، جسے جنین کو رحمِ مادر کے بغیر نشوونما دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔اِس ٹیکنالوجی کے تحت جنین کو ایک مصنوعی ماحول میں رکھا جاتا ہے، جس میں آکسیجن، غذائیت اور دیگر ضروری عوامل فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ قدرتی رحم کی طرح نشوونما کر سکے۔ اِس ٹیکنالوجی پر تجربات کا آغاز2017ء میں کیا گیا۔اِس ضمن میں سائنس دانوں نے ایک میمنے کو چار ہفتے تک مصنوعی رحم میں رکھا، جس کے دَوران وہ مکمل طور پر صحت مند رہا۔
اِس کام یاب تجربے کے بعد سائنس دانوں نے یہ ٹیکنالوجی انسانوں کے جنین پر آزمانی شروع کردی۔یہ مصنوعی رحم، دراصل ایک مکمل طور پر کنٹرول شدہ ماحول فراہم کرتا ہے، جس میں جنین کی نشوونما کے تمام اہم عوامل کا دھیان رکھا جاتا ہے، جیسے کہ خون کی سپلائی، غذائیت اور دیگر حیاتیاتی ضروریات۔ یہ سسٹم ایک ایسے نظام کے تحت کام کرتا ہے، جسے ’’Ex Vivo‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جنین کو باہر کسی مصنوعی ماحول میں رکھا جاتا ہے، جہاں اس کی پرورش قدرتی رحم کی طرح کی جاتی ہے۔
اِس تیکنیک کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنین کو رحمِ مادر کے اندر موجود جسمانی اور کیمیائی ماحول سے محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بغیر کسی جسمانی پیچیدگی کے نشوونما پائے، لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا ’’آرٹیفیشل وومب‘‘ ماں کے رحم کا مکمل نعم البدل بن سکتا ہے یا یہ صرف ایک عارضی حل ہوگا؟ اِس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں اِس سائنسی پیش رفت کی حقیقت، اِس کے فوائد اور چیلنجز پر غور کرنا ہوگا۔
ماں کا روحانی کردار
قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہؐ میں ماں کے مقام کو بہت بلند و بالا حیثیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ماں کے کردار کو نہ صرف ایک روحانی اور جسمانی متولّی کے طور پر بیان کیا ہے، بلکہ اس کی فکری اور تربیتی ذمّے داریاں بھی اجاگر کی ہیں۔ قرآنِ کریم میں ایک مقام پر فرمایا گیا۔ ”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ سے متعلق تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اُسے پیٹ میں رکھا۔ اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہے۔ تو (انسان) میری اور اپنے ماں باپ کی شُکر گزاری کرے، میری ہی طرف لَوٹ کر آنا ہے۔‘‘
اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ماں کی عظمت، صبر ومشقّت کا ذکر کیا ہے اور اِس کے لیے’’وھنا علی وھن‘‘(کم زوری پر کم زوری) جیسے الفاظ کے ذریعے ماں کی جسمانی اور ذہنی مشقّت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ دراصل، ماں کی گود وہ جگہ ہے، جہاں بچّے کی فکری تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ ماحول، جو ایک ماں اپنے بچّے کے لیے تیار کرتی ہے، اُس کی ابتدائی فکری نشوونُما کا پہلا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس کا مقام صرف جسمانی پرورش تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس میں ایک ایسی گہری فکری بصیرت اور حکمت چُھپی ہے، جو اِس بچّے کی ساری زندگی کا نقشہ تشکیل دیتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے مقام کو اِس قدر بلند فرمایا کہ ارشاد ہوا۔’’جنّت تمہاری ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘(ابنِ ماجہ) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماں کا کردار صرف ایک جسمانی متولّی کا نہیں، بلکہ اس کی فکری اور روحانی قیادت کا دروازہ جنّت کی طرف کُھلتا ہے۔
ماں کی فکری بصیرت اِس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ جنّت کی راہ بھی اس کی تربیت میں پوشیدہ ہے۔ یہ تصوّر ہمیں اِس بات کی گہرائی میں لے جاتا ہے کہ ماں نہ صرف اپنے بچّے کی جسمانی پرورش کرتی ہے بلکہ اس کی فکری اور روحانی رہنمائی کا اوّلین ذریعہ بھی بنتی ہے۔
آرٹیفیشل وومب کی ٹیکنالوجی، اگرچہ سائنسی طور پر بہت ترقّی یافتہ ہے، لیکن اس سے ماں کے روحانی اور سماجی کردار پر گہرے اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ ماں کا کردار سماجی اقدار کی نشوونما، اخلاقی تربیت اور نسلوں کے بیچ روابط کی مضبوطی میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
سوال یہ ہے کہ آرٹیفیشل وومب، جنین کے جسمانی تحفّظ اور نشوونما کی تکمیل میں تو کام یاب ہو سکتا ہے، مگر کیا یہ ماں کے روحانی اور سماجی کردار کا بدل بھی بن سکے گا؟ جب جنین، ماں کے جسم سے الگ ہو کر مصنوعی رحم میں پروان چڑھے گا، تو اس کی ابتدائی تربیت اور سماجی اقدار پر ماں کا براہِ راست اثر محدود ہوجائے گا۔
ماں کا جسم، جنین کو نہ صرف جسمانی تحفّظ دیتا ہے بلکہ یہ اسے ایک جذباتی اور اخلاقی تعلق بھی فراہم کرتا ہے، جو اس کی زندگی کے ابتدائی دنوں میں اس کے دنیاوی اور روحانی وجود کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ کو تین اندھیری تہوں کی مثال سے بیان کیا۔”وہ تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک حالت کے بعد دوسری حالت میں تین تاریک پردوں میں تخلیق کرتا ہے۔“ (سورۃ الزمر، آیت: 6)
ماں کے رحم میں جنین کا بڑھنا محض ایک جسمانی عمل نہیں ہے، بلکہ یہ سماجی اور روحانی تناظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ ماں کی تربیت اور اس کا احساس، جو بچّے کی ابتدائی نشوونما کے دَوران اس پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کی شخصیت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آرٹیفیشل وومب اگرچہ ماں کے جسمانی مقام کو نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اس میں وہ سماجی اور روحانی رشتہ موجود نہیں ہو سکتا، جو ماں اور بچّے کے درمیان قدرتی طور پر قائم ہوتا ہے۔
ماں کا حیاتیاتی اور جذباتی کردار
ماں کا جسم جنین کی نشوونما کے لیے وہ تمام حالات فراہم کرتا ہے، جو اس کے جسمانی، ذہنی اور جذباتی ارتقاء کے لیے ضروری ہیں۔ ماں کی صحت، جسمانی حالت اور ہارمونل ردّ ِعمل جنین کی بقا اور نشوونما میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ماں کا رحم، جنین کو نہ صرف جسمانی تحفّظ فراہم کرتا ہے بلکہ اُسے تمام ضروریات مہیا کرتا ہے، جیسے آکسیجن، غذائی اجزاء اور جسمانی سکونت۔
ماں کا جسم، جنین کے ساتھ مسلسل تعامل میں ہوتا ہے اور جیسے ہی اُس کی حالت میں کوئی تبدیلی آتی ہے، ماں کا جسم اس پر فوری ردّ ِعمل ظاہر کرتا ہے۔ یہ عمل کسی مصنوعی نظام میں نہیں ہو سکتا۔ آرٹیفیشل وومب انسان کی اِس قدرتی صلاحیت کو مکمل طور پر نقل کرنے میں کام یاب نہیں ہو سکا، کیوں کہ ماں کا جسم جنین کے ساتھ جو رشتہ قائم کرتا ہے، وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔
جذباتی اور نفسیاتی اثرات
ماں کا جنین سے جذباتی تعلق انسان کی زندگی کے سب سے اہم مراحل میں سے ایک ہے۔ ماں کے جسم میں جنین کے بڑھتے ہوئے اثرات، اُس کے ساتھ جسمانی تعلقات اور ماں کی محبّت کا نفسیاتی اثر جنین کی ذہنی اور جسمانی صحت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ماں کی موجودگی جنین کو ایک سکون اور تحفّظ فراہم کرتی ہے، جو اُسے آرٹیفیشل وومب میں نہیں مل سکتا۔ جنین کا ماں کی موجودگی میں بڑھنا، اُس کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
ماں کا جسم جنین کے لیے مختلف کیمیکلز اور ہارمونز فراہم کرتا ہے، جو اُس کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ، ماں کی جذباتی حالت جنین کی نشوونما پر اثرانداز ہوتی ہے، کیوں کہ ماں کی جذباتی صُورتِ حال جنین کی صحت کے لیے براہِ راست اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماں کی جسمانی اور جذباتی موجودگی آرٹیفیشل وومب میں ممکن نہیں ہو سکتی۔
ماہرین کی آراء
آرٹیفیشل وومب کا مقصد ماں کے رحم کی نقل کرنا ہے، مگر کیا یہ ماں کے حیاتیاتی اور جذباتی کردار کا بھی نعم البدل بن سکتا ہے؟ ماہرین کی جانب سے ابھی تک اِس ضمن میں کوئی واضح رائے سامنے نہیں آسکی، جب کہ سائنسی تحقیقات بھی فی الحال اِس کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
ماں کا جسمانی کردار
ماں کا جسم جنین کی بقا کے لیے وہ تمام ضروریات فراہم کرتا ہے، جو اس کی نشوونما کے لیے اہم ہیں، جیسے آکسیجن، خون کا بہاؤ اور دیگر غذائی اجزاء۔ آرٹیفیشل وومب، جنین کے لیے یہ جسمانی ضروریات تو پوری کرنے میں کام یاب ہو سکتا ہے، مگر یہ ماں کے جسم کی قدرتی خصوصیات کو مکمل طور پر نقل نہیں کر سکتا۔
ماں کا جذباتی اور نفسیاتی کردار
ماں کا جنین سے جذباتی تعلق بہت اہم ہوتا ہے اور ماں کی موجودگی جنین کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر گہرے اثرات مرتّب کرتی ہے۔ جب ماں اپنے بچّے کو حمل کے دَوران محسوس کرتی ہے، تو اس کا جسم اس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، ماں کی محبّت اور قربت جنین کے دماغی و جسمانی ارتقاء میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
آرٹیفیشل وومب میں یہ جذباتی تعلق نہیں ہوتا، کیوں کہ جنین کو ماں کی جسمانی اور جذباتی موجودگی سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ماں کے جسم کا جنین کے ساتھ براہِ راست تعامل اور اس کا جذباتی اثر، کسی مصنوعی رحم میں ممکن نہیں۔
سائنسی تحقیقات اور کیس اسٹڈیز
سائنسی دنیا میں آرٹیفیشل وومب کی کام یابی جانچنے کے لیے متعدّد تجربات اور کیس اسٹڈیز کی گئیں۔2017 ء میں، ایک تحقیق کے دَوران سائنس دانوں نے چوہوں کے جنین کو ایک مصنوعی رحم میں کام یابی کے ساتھ پروان چڑھایا۔ اِس تحقیق نے آرٹیفیشل وومب کے مستقبل میں کام یاب ہونے کی اُمیدوں کو تقویت دی۔
اس کے بعد2020 ء میں، سائنس دانوں نے انسانی جنین کی نشوونما کے لیے بھی تجربات شروع کیے، جن میں جنین کے جسمانی نمو کی نگرانی کی گئی۔ تاہم، یہ تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل ہی میں ہیں اور ان کے طویل مدّتی اثرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ آیا آرٹیفیشل وومب ماں کے رحم کا مکمل نعم البدل بن سکتا ہے یا نہیں۔
چیلنجز اور اخلاقی مسائل
آرٹیفیشل وومب کی کام یابی کے باوجود اس کے کچھ اہم چیلنجز اور اخلاقی مسائل ہیں، جنہیں حل کرنا ضروری ہے۔
(1) جذباتی اور نفسیاتی اثرات
ماں کے جسم میں جنین کا بڑھنا صرف جسمانی ہی نہیں، نفسیاتی طور پر بھی بہت اہم ہے، کیوں کہ ماں اور بچّے کے درمیان جذباتی تعلق اس کی نشوونما میں مددگار ثابت ہوتا ہے، جو آرٹیفیشل وومب میں نہیں ہو سکتا۔
(2)اخلاقی سوالات
اگر آرٹیفیشل وومب ماں کے رحم کا نعم البدل بن جائے، تو اس سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔بچّوں کی پرورش، والدین کے کردار اور ماں کی جسمانی و جذباتی حیثیت پر اس کے گہرے اثرات مرتّب ہوں گے۔
(3)طویل مدّتی اثرات
آرٹیفیشل وومب سے جنین کی نشوونما اور صحت پر کون سے طویل مدّتی اثرات مرتّب ہوسکتے ہیں؟ یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے اور اس سے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
آرٹیفیشل وومب کا مستقبل
آرٹیفشل وومب مستقبل میں ایک اہم سائنسی پیش رفت ہو سکتی ہے، خصوصاً جنین کی قبل از وقت پیدائش یا ماں کی طبّی پیچیدگیوں میں اِس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ اِس طرح کے معاملات میں اِس ٹیکنالوجی سے مدد لی جاسکتی ہے، لیکن کیا یہ ماں کے جسمانی، جذباتی اور نفسیاتی کردار کا مکمل نعم البدل بننے کی اہلیت بھی رکھتی ہے، یہ مرحلہ ابھی بہت دُور ہے۔
اِس ٹیکنالوجی کی کام یابی کا انحصار اِس امر پر ہے کہ آیا اِسے صرف ایک عارضی حل کے طور پر استعمال کیا جائے گا یا یہ واقعی انسانی زندگی میں انقلاب لا سکے گی۔ بہرحال، اس کا جواب وقت اور سائنسی تحقیقات ہی پر منحصر ہے۔
حاصلِ کلام
آرٹیفیشل وومب ایک بہت ہی انقلابی ٹیکنالوجی ہے، جو جنین کی حفاظت اور نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ تاہم، یہ ماں کے حقیقی حیاتیاتی، جذباتی اور نفسیاتی کردار کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ ماں کا تعلق اور اس کی موجودگی انسانی زندگی میں ایک غیر متبادل حیثیت رکھتی ہے۔
گویا، آرٹیفیشل وومب کو ایک عارضی حل کے طور ہی پر دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اِس ٹیکنالوجی کے سماجی و اخلاقی اثرات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ اِسے انسانی فلاح کے لیے مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔