پہلگام واقعے نے ایک مرتبہ پھر پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا۔مقبوضہ کشمیر کے اِس سیّاحتی مقام پر ایک دہشت گردانہ حملے میں27سیّاح ہلاک اور متعدّد زخمی ہوگئے تھے۔پاکستان نے اِس واقعے پر بہت ہی متوازن رویّہ اختیار کیا۔ہلاکتوں پر افسوس اور زخمیوں کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا گیا، لیکن بھارت کی جانب سے اِس پر جس قسم کا جارحانہ جواب آیا، اِس نے جنوبی ایشیا کے دونوں بڑے ہم سایوں کو ایک دوسرے کے مدّ ِمقابل کردیا۔بھارت نے کسی ثبوت کے بغیر ہی چند منٹس کے اندر اندر اِس واقعے کا الزام پاکستان پر دھر دیا اور پھر بھارتی میڈیا پر گویا جنگی جنون سوار ہوگیا۔
مودی میڈیا نے، جسے’’گودی میڈیا‘‘ بھی کہا جاتا ہے، نہایت ہی مضحکہ خیز اور غیر ذمّے دارانہ انداز میں پاکستان کے خلاف آگ و نفرت کے شعلے اُگلنے شروع کردیئے اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی کہ پاکستان اِس واقعے میں ملوّث ہے، بلکہ بھارتی میڈیا کی جانب سے کُھلے عام، چیخ چیخ کر، گرج گرج کر اپنی حکومت اور فوج سے مطالبہ کیا جانے لگا کہ پاکستان کو سبق سِکھانے کے لیے فوری فوجی کارروائی کی جائے۔ٹی وی چینلز پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ نگار بھی انتہائی بھونڈے انداز میں’’بدلہ، بدلہ‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔بھارتی سوشل میڈیا ویسے بھی انتہا پسندانہ سوچ اور پراپیگنڈے کے لیے پوری دنیا میں بدنام ہے، مگر اِس مرتبہ تو اُس نے تمام حدیں ہی پار کرلیں اوراِس مہم جُوئی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
مودی حکومت، جو روزِ اوّل سے مسلمانوں اور پاکستان سے متعلق متشدّدانہ سوچ رکھتی ہے، اپنے میڈیا کا دبائو برداشت نہ کر سکی اور دوسرے ہی دن اس نے پاکستان کے خلاف کئی ایسے اقدامات کا اعلان کر دیا، جو کسی’’اعلانِ جنگ‘‘ سے کم نہیں تھے۔ اِن اقدامات میں سب سے اہم سندھ طاس معاہدے کو معطّل کرنا تھا۔ ظاہر ہے، اُسے اِس کا جواب پاکستان کی طرف سے بھی ویسا ہی ملا۔ وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے وارننگ دی کہ پانی کو روکنا، جنگ تصوّر ہوگا، لیکن پھر بھی پاکستان نے ایک بڑا ہی متوازن پیغام دیا۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ پہلگام واقعے کی غیر جانب دارانہ بین الاقوامی تحقیقات کروا لی جائیں تاکہ سیاہ و سفید کا پتا چل سکے۔
بین الاقوامی طاقتوں اور اداروں کی طرف سے بھی اِس معاملے پر مؤقف آنا شروع ہوگئے۔امریکا کے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اِس معاملے کو دونوں ممالک کے رہنما مل جُل کر حل کرلیں، کیوں کہ ان کے درمیان کشیدگی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پھر ان کے وزیرِ خارجہ، روبیو نے وزیرِ اعظم، شہباز شریف اور بھارتی وزیرِ خارجہ سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے اُنہیں معاملہ مل کر سلجھانے، تحقیقات کرنے اور کشیدگی میں کمی کا کہا۔
یہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے دَوران امریکا کا پہلا باقاعدہ سرکاری رابطہ تھا۔ یاد رہے، پہلے بھی امریکا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔چین نے پاکستان کی سالمیت کی بھرپور حمایت کی اور ساتھ ہی دونوں ممالک سے کہا کہ وہ تحمّل سے کام لیں، جب کہ اس نے تحقیقات کے مطالبے کی بھی کُھل کر حمایت کی۔ سعودی عرب، تُرکیہ اور ایران نے نہ صرف دونوں ممالک سے تحمّل کے مظاہرے کا کہا، بلکہ ثالثی کی پیش کش بھی کی۔سلامتی کاؤنسل کی قرارداد میں بھی دونوں ممالک سے تحمّل اختیار کرنے اور مذاکرات کے لیے کہا گیا۔
’’سندھ طاس معاہدے‘‘ پر بات کرنے سے پہلے ایک سادہ سے سوال کا جواب دے دیا جائے، تو کافی حد تک بات واضح ہوجائے گی اور اِس حوالے سے ذہنوں پر سوار خوف میں بھی کمی واقع ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ’’کیا بھارت، پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟‘‘اور اس کا جواب ہے،’’ بالکل بھی نہیں۔
کم ازکم اِس مقدار میں تو نہیں، جس سے پاکستان میں پانی کی کمی کا کوئی خطرہ ہو۔‘‘سندھ طاس معاہدے پر1960ء میں دست خط ہوئے تھے۔ اُس وقت جواہر لال نہرو بھارت کے وزیرِ اعظم اور ایّوب خان پاکستان کے صدر تھے، جب کہ عالمی بینک نے ثالث اور ضامن کا کردار ادا کیا تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آبی معاہدہ65 سال سے قائم ہے اور کہا جاتا ہے کہ دنیا میں اب تک ہونے والے ایسے معاہدوں میں یہ کام یاب ترین معاہدہ ہے۔
اِس معاہدے کے تحت انڈس بیسن کی تقسیم، جو چھے دریائوں پر مشتمل ہے، عمل میں آئی۔ پاکستان کو مغربی دریاؤں میں سے تین، یعنی جہلم، سندھ اور چناب ملے، جب کہ باقی تین دریا راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو ملے۔ بھارت کو آب پاشی یا بجلی بنانے کے لیے اِن تینوں دریاؤں پر ڈیم بنانے کا تو حق حاصل ہے، لیکن اِن کا بہائو روکنے کا اختیار نہیں، یعنی معاہدے میں اِس امر کا خاص خیال رکھا گیا کہ پاکستان، جو ڈائون اسٹریم پر ہے، کسی طرح بھی اِن دریائوں کے پانی سے متاثر نہ ہو۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان پانی پر کوئی تنازع پیدا ہو، تو کیا کیا جائے گا؟اس کے لیے بھی معاہدے میں ایک خوکار میکنزم موجود ہے، جو فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں، اِسے یک طرفہ طور پر چھیڑا نہیں جاسکتا اور نہ ہی اِس کی کوئی تشریح کی جاسکتی ہے، کجا کہ معطّل کرنے کی بات کی جائے۔اِسی معاہدے کی وجہ سے اِن دریائوں میں پانی کی روانی برقرار رہی اور اِسی کو بنیاد بنا کر پاکستان نے وہ ایری گیشن سسٹم بنایا، جس کا شمار دنیا کے بہترین آب پاشی نظاموں میں ہوتا ہے۔ اِس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ معاہدہ کارآمد رہے اور دونوں ممالک کے عوام اِس سے فائدہ اُٹھائیں،’’انڈس واٹر کمیشن‘‘ کی صُورت ایک نظام بنایا گیا، جس میں دونوں ممالک سے ایک ایک واٹر کمشنر شامل ہوتا ہے اور ان کی سال میں ایک مرتبہ میٹنگ لازمی قرار دی گئی۔
اِسی نظام کے تحت پانی کا ڈیٹا شیئر کیا جاتا ہے، جو کسی بھی خطرے کی روک تھام کے لیے کام میں لایا جاسکتا ہے۔جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ سندھ طاس منصوبہ دنیا کے کام یاب ترین آبی منصوبوں میں سرِفہرست ہے اور اِس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ دونوں ممالک میں چار جنگیں ہوئیں، متعدّد بار خوف ناک کشیدگی ہوئی، تاہم اِس معاہدے کے تحت دریا بہتے رہے۔خطّے کے لیے اِس کی اہمیت یہ بھی ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں، یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان رابطے کا ذریعہ رہتا ہے۔
اِسی فورم پر مون سون، گلیشیئرز، دریاؤں میں پانی چھوڑنے اور ڈیمز کی تعمیر جیسے امور زیرِ بحث آتے ہیں۔اِس ضمن میں ایک اہم نکتہ یہ بھی کہ اِس معاہدے سے پانی کی یقینی فراہمی، جو کسی بھی مُلک کی اہم ترین ضرورت ہے، ممکن ہوئی۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ بھارت نے اِسے یک طرفہ طور پر معطّل کر کے اچھے ماحول میں خلل ڈالنے کی کوشش کی، اِسی لیے شہباز شریف نے اسے’’ایکٹ آف وار‘‘ کہا اور ایک زرعی مُلک کے لحاظ سے یہ بیان قابلِ فہم بھی ہے۔
ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطّلی بھارت کی حماقت ہی نہیں، اپنے عوام کو بے وقوف بنانے اور اُنھیں جھانسا دینے کی کارروائی ہے۔عالمی بینک اِس معاہدے کا بروکر ہے اور وہ کسی بھی ایسی یک طرفہ کارروائی میں اپنا کردار ضرور ادا کرے گا۔اور اگر یہاں معاملہ حل نہ ہوا، تو پاکستان عالمی عدالت سے بھی رجوع کرسکتا ہے، جہاں عالمی بینک بھی گواہ کے طور پر موجود ہوگا۔پھر یہ کہ دنیا اور عالمی طاقتیں اِس معاہدے کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور اُنہیں یہ بھی علم ہے کہ اِس کی معطّلی کوئی مذاق نہیں۔
آبی ماہرین کے مطابق بھارت اب تک اِن دریاؤں پر بمشکل دو ڈیم بنا سکا ہے، بگلیہار اور کرشن گنگا ڈیمز۔بالفرض، اگر بھارت دریائوں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا بھی ہے، تو اُسے اِس مقصد کے حصول کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ دوم، اگر وہ پانی کی بندش کی کوئی فوری کوشش کرتا ہے، تو بھارت کے تمام مغربی شہر خوف ناک سیلاب کے خطرات سے دوچار ہوجائیں گے اور صورتِ حال سنبھالی نہیں جائے گی کہ اوپر سے مون سون کا موسم بھی قریب ہے۔ اِسی لیے شاید بھارت نے معطّلی کا لفظ استعمال کیا، کسی عملی اقدام کا ذکر نہیں۔
پھر یہ بھی یاد رہے کہ خطّے میں بہنے والے تمام دریا ہمالیہ کی انتہائی چوٹی پر واقع جھیلوں سے نکلتے ہیں، جو چین کی طرف واقع ہیں۔ یہ چھے دریا ہمالیہ جھیل سے نکلتے ہیں، جب کہ بھارت کا بنیادی دریا، براہما پترا بھی تبت کی ایک جھیل سے شروع ہوتا ہے۔ بھارت اور چین میں وقتاً فوقتاً ہونے والی کشیدگی کچھ دن بعد تلخی، بلکہ فوجی نقل و حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
تو اگر بھارت کسی معاہدے کی معطّلی کے تحت پاکستان کے خلاف آبی رکاوٹ کی کوشش کرتا ہے، تو کل کلاں بالکل ایسا ہی کوئی اقدام اِس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ گویا، یہ دھمکی بھارت کو اس کے تصوّر سے بھی زیادہ منہگی پڑ سکتی ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حال ہی میں بنگلا دیش کے سربراہ، محمّد یونس نے بھارت کی سات جنوبی ریاستوں کا ذکر کیا تھا، جہاں پورٹ نہیں ہے اور اُنہیں اِس ضمن میں بنگلا دیش کی معاونت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اِس بیان پر بھارت بہت سیخ پا ہوا تھا۔ ویسے بھی آج کل بنگلا دیش اور بھارت کے باہمی تعلقات نچلی سطح پر ہیں۔
پاکستان میں ایک تسلسل سے دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہو رہے ہیں۔اگر دیکھا جائے، تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان ہی نے اُٹھایا کہ وہ کئی برس سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست کے طور پر کردار ادا کر رہا ہے اور تقریباً ہر مُلک اِس کردار کا معترف بھی ہے۔ آج دنیا کو جس خطرے کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہ یہی نان اسٹیٹ ایکٹرز ہیں اور اِنہوں ہی نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر آسٹریلیا تک، پوری دنیا کو آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔
بھارت، پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ اس کی سرزمین ،کراس بارڈر ٹیرر ازم کے لیے اس کے خلاف استعمال ہوتی ہے اور وہ اِس سلسلے میں ممبئی حملے سے لے کر کشمیر میں ہونے والے متعدّد واقعات تک کی مثالیں دیتا ہے، لیکن جب پاکستان اُس سے ثبوت مانگتا ہے، تو جواب میں صرف خاموشی ہی ملتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر بدنام کرنے کے لیے اِن الزامات کو استعمال کرتا ہے،جب کہ اُس کے پاس دِکھانے کو کچھ نہیں۔
دوسری طرف، پاکستان بار بار بھارت، خاص طور پر اُس کی جاسوس ایجینسی’’را‘‘ پر پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی پُشت پناہی کے الزامات عاید کرتا ہے اور اِس ضمن میں ثبوت بھی پیش کرتا ہے۔خاص طور پر بلوچستان میں گزشتہ دنوں جعفر ایکسپریس پر حملے سمیت دیگر خون ریز واقعات ہوئے، جن میں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے، اُنھیں بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔
یہ ایک صوبے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی مذموم کوشش ہے، جس کا اعتراف خود’’را‘‘ کے سابقہ چیف، اجیت دوول اپنی ایک حالیہ کتاب میں کرچُکے ہیں۔تاہم، پاکستان ہمیشہ تحمّل سے کام لیتا رہا ہے اور ایسے کسی اقدام کی طرف نہیں جاتا، جو دونوں ہم سایوں میں کسی براہِ راست ٹکرائو کا سبب بنے۔پاکستان کا یہی ذمّے دارانہ رویّہ ہے، جس کی وجہ سے یہ خطّہ نیوکلیئر پاورز کی موجودگی کے باوجود پُرامن رہا۔
جیسے ہی پہلگام واقعہ ہوا، عالمی و علاقائی طاقتوں اور دوست ممالک کا ردّ ِعمل سامنے آنے لگا۔اب تک پاکستان اور بھارت میں جتنی بھی ایسی کشیدگیاں ہوئیں، جو کسی جنگ کی جانب جاسکتی تھیں، اُن میں امریکا ثالث کا کردار ادا کرتا رہا۔ 2019ء کے پلواما واقعے سے پیدا شدہ کشیدگی میں بھی امریکا نے ثالثی کی اور معاملے کو ٹھنڈا کیا۔اُس وقت بھی صدر ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں موجود تھے، جو دنیا میں جنگوں کے سخت خلاف ہیں۔
اب بھی امریکا نے دونوں ممالک کو تحمّل سے کام لیتے ہوئے معاملات طے کرنے کو کہا۔اِس سلسلے میں تُرکیہ اور سعودی عرب نے بھی کشیدگی میں کمی کی کوشش کی۔ شہباز شریف نے کہا کہ امریکا، بھارت پر دبائو ڈالے کہ وہ اشتعال انگیزی بند کرے۔ یقیناً اِس سلسلے میں امریکا نے چین اور اپنے اتحادیوں سے بھی بات کی ہوگی، جو دونوں ممالک کے دوست ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ کے زیادہ تر ممالک پاکستان اور بھارت کی قیادت سے ذاتی طور پر واقف ہیں، جب کہ وہ مختلف ممالک کے درمیان ثالثی کا کردار بھی ادا کرتے رہتے ہیں۔دوحا میں ہونے والے مذاکرات اور پھر اِس کے نتیجے میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔
اِسی طرح حالیہ دنوں میں روس، یوکرین اور امریکا کے درمیان سعودی عرب میں مذاکرات ہوئے، جب کہ اومان نے ایران، امریکا مذاکرات کی میزبانی کی۔روس، بھارت کا قریبی دوست ہے، جب کہ پاکستان سے بھی اس کے تعلقات اچھے ہیں اور وہ شنگھائی فورم کا رُکن بھی ہے، جس کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی افواج روس کے پہاڑی علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں کرتی ہیں۔یاد رہے،1965 ء کی پاک، بھارت جنگ کے بعد روس کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان تاشقند معاہدہ ہوا۔
چین، پاکستان کا سب سے اہم علاقائی اور عالمی دوست ہے۔ سی پیک جیسے عالمی منصوبے میں اہم ترین شراکت دار کے علاوہ پاکستان کے اُس کے ساتھ متعدّد دوطرفہ منصوبے بھی ہیں۔پاکستانی عوام میں چین ایک خاص مقام رکھتا ہے اور وہ اُسے اپنا سب سے قابلِ اعتماد دوست مانتے ہیں۔ فوجی طور پر بھی پاک، چین تعلقات میں سال بہ سال اضافہ ہو رہا ہے۔یوں سمجھ لیں کہ پاکستان نے گزشتہ سالوں میں80 فی صد سے زاید ہتھیار چین ہی سے لیے ہیں۔نیز، پاکستان معلومات کی شیئرنگ کے لیے بھی چین کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتا ہے۔
عالمی سیاست میں چین، پاکستان کی ہر فورم پر حمایت کرتا ہے۔اگر پہلگام واقعے پر بھارتی میڈیا کے شور شرابے کے باوجود عالمی سطح پر سکون رہا، تو اس کی بڑی وجہ چین کا وہ عالمی کردار تھا، جس میں سلامتی کاؤنسل کی ایک فوری قرارداد میں دونوں ممالک کو تحمّل سے کام لینے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا گیا۔چین کے بھارت سے بھی اچھے تعلقات ہیں اور دونوں کے باہمی تجارتی روابط بہت گہرے ہیں، اِس لیے چین کبھی نہیں چاہے گا کہ جنگ اُس ترقّی کو سبوتاژ کر دے، جس کے لیے وہ برسوں سے کوشاں ہے۔
چین کے وزیرِ خارجہ نے پہلگام واقعے کی عالمی تحقیقات سے متعلق پاکستانی مؤقف کی حمایت کی۔دنیا میں کہیں بھی ایسے خونی معاملات جب دو ممالک کے درمیان وجۂ کشیدگی بنتے ہیں، تو ایسی تحقیقات ہی بہترین حل مانی جاتی ہیں، لیکن بھارت کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ اس سے کنی کترا جاتا ہے، جس سے شکوک و شبہات ہی جنم نہیں لیتے، بلکہ اگر یہ کارروائی کسی تیسری پارٹی کی طرف سے کی جارہی ہے، تو اُسے بھارتی رویّے کے سبب چُھپنے کا موقع مل جاتا ہے۔
اِس طرح کے بلند بانگ دعوے کرنا تو آسان ہے کہ’’ ہم دنیا کے آخری کونے تک دہشت گردوں کا پیچھا کریں گے‘‘، لیکن یہ کام ہو نہیں پاتا ،کیوں کہ تحقیقات سے جو باہمی تعاون ممکن ہوتا ہے، اُسے موقع نہیں ملتا۔ساری دنیا دہشت گردی کا شکار ہے۔اِس سے بڑی طاقتیں بچی ہیں اور نہ ہی چھوٹے ممالک محفوظ ہیں۔بہت شور مچایا جاتا ہے کہ تمام ممالک کو دہشت گردی کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے، لیکن جب وقت آتا ہے، تو تعاون کی بجائے الزامات ہی پر فوکس رکھا جاتا ہے۔
بھارت نے یہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے کہ اس کا وزیرِ اعظم جہاں بھی جاتا ہے، مشترکہ اعلامیے میں یہ بات ضرور شامل کرواتا ہے کہ کراس بارڈر ٹیررازم برداشت نہ کی جائے، مگر سوال یہ ہے کہ اگر بھارت اِس معاملے میں واقعی سنجیدہ ہے، تو پھر ایسے واقعات کی عالمی اور غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے کسی میکنزم پر کیوں راضی نہیں ہوتا، تاکہ سب کو پتا چل جائے کہ حقیقت کیا ہے۔
صرف اِس بنیاد پر اپنے پڑوسیوں پر الزامات لگانا اور اُنھیں دھمکیاں دینا کہ وہ معاشی آزمائش سے گزر رہے ہیں اور بھارت ایک بڑی منڈی ہے، کوئی درست طرزِ عمل نہیں۔ یہ رویّہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کی ایسے واقعات میں کمی سے کوئی دل چسپی نہیں، بلکہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے اپنے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھتا ہے اور اِس معاملے میں اپنے میڈیا کا استعمال بھی بڑی بے دردی سے کرتا ہے۔
جعفر ایکسپریس سانحے پر بھی بھارتی میڈیا نے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور پہلگام واقعے کے بعد بھی جنگ کے نعرے بلند کرنے کے ساتھ، پاکستان کو سبق سِکھانے کی دھمکیاں دیتا رہا۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ بھارتی میڈیا پر اُن افراد کی اجارہ داری ہے، جو انتہاپسند ہیں اور صحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔پراپیگنڈے میں بھی اچھا پراپیگنڈا وہ ہوتا ہے، جو الفاظ میں لپیٹ کر کیا جائے،جب کہ کُھلے عام دھمکیاں دینے کا مطلب اس کے سِوا کیا ہوسکتا ہے کہ آئو، اکھاڑے میں اُترو اور زور آزمائی کرو۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں اطراف کے سوشل میڈیا کے شہ سوار یہ سمجھتے ہیں کہ لوگ ہر وقت اُن کے جھوٹے سچّے، لایعنی پراپیگنڈے کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں۔
چاہیں یا نہ چاہیں، ریاستوں کے ٹھوس اقدامات ہی لوگوں کے لیے فیصلہ کُن ہوتے ہیں۔گزشتہ کسی بھی پاک، بھارت تنازعے کو اُٹھا کر دیکھ لیں، کیا اس کا فیصلہ چینلز کے ٹاک شوز، پروگرامز کی گرما گرمی میں ہوا یا امریکا اور دوسرے ممالک کی سفارت کاری سے معاملات حل کیے گئے۔سوشل میڈیا سے عوام کے جذبات بھڑکائے جاسکتے ہیں، خود کو’’میڈیا کا کمانڈر‘‘ ثابت کیا جاسکتا ہے، لیکن تنازعات کا فیصلہ بہرحال مذاکرات کی میز ہی پر ہوتا ہے۔غزہ سے بدترین ظلم اور یوکرین سے خوف ناک جنگ کی خبریں آرہی ہیں، اِن پر طرح طرح کے تبصرے ہو رہے ہیں۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ سڑکوں کی ریلیاں اور میڈیا کا دبائو حالات بدل دیتے ہیں، تو کیا اِن دونوں جنگوں میں ایسا کچھ ہوا؟جواب نفی ہی میں ہے۔اکثر ویت نام کی مثال دی جاتی ہے کہ اُس وقت کیسے امریکی عوام نے اپنی افواج کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا، لیکن کیا یہ عمل افغانستان میں دُہرایا جاسکا۔ آج امریکی واپسی کے بعد افغانستان، دنیا کے غریب ترین ممالک میں شمار ہونے کے علاوہ دانے پانی کو ترس رہا ہے۔
وہاں کی عبوری حکومت تین سال کے بعد بھی اپنے عوام کو کوئی مستحکم حکومت نہیں دے سکی کہ امریکی امداد آج بھی اس کا سب سے بڑا ذریعۂ معاش ہے۔کیا یہی جنگِ آزادی کا پھل ہے، یہ بات افغان طالبان کو ضرور سوچنی چاہیے۔ اُن کا اپنے ہی علاقے میں مختلف ملیشیاز پر کوئی کنٹرول نہیں۔ اگر ہر کوئی اپنی میڈیا کی دُکان سجا کر بیٹھ جائے، تو ممکن ہے کہ اُن میں سے کچھ کو یوٹیوب مونی ٹائیزیشن سے مالی فائدہ ہو جائے، لیکن اُن کی بے سروپا باتوں سے مسائل حل ہونے کی بجائے الجھائو ہی بڑھے گا۔اِن کی ویڈیوز کے تھمب نیل کی سرخی کچھ ہوتی ہے اور مواد کچھ۔
گویا، مُلک و قوم کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو، اُنھیں بس ڈالرز ملتے رہیں۔میڈیا کے مُلکوں پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، یہ وہ ممالک اور عوام خُوب سمجھتے ہیں، جنہوں نے مواصلاتی سیاروں کے بھرپور استعمال اور پراپیگنڈے سے سوویت یونین کو بکھرتے دیکھا، لیکن چھوٹے ممالک کے عوام، جو ابھی بنیادی معاشی مضبوطی کی منزل سے کوسوں دُور ہیں، اِسے کھیل سمجھتے ہیں۔اُنہیں کیا معلوم کہ یہ بے پر کی کہانیاں کیسے کیسے سانحات اور حادثات کا سبب بن رہی ہیں۔
ہمارے اور بھارت جیسے ممالک کے عوام جذبات اور پیسوں کے لالچ میں بہہ کر کہاں سے کہاں چلے جاتے ہیں، اس کے کچھ نظارے تو دیکھ لیے، باقی اب دیکھ رہے ہیں۔جب پوری دنیا بھارت اور پاکستان کو تحمّل کا مشورہ دے رہی ہے، تو اِن دونوں کو بھی اپنے میڈیا کو’’ٹھنڈا‘‘ رہنے کا کہنا چاہیے، کیوں کہ اِن’’میڈیا سُپر مین‘‘کی وجہ سے دونوں ممالک اور اُن کے عوام آزمائشوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
یہ افراد جس قسم کا زہر پھیلاتے اور معاشروں میں تقسیم پیدا کرتے ہیں، اُس کی تلافی ممکن نہیں۔حکومتیں اور اِنھیں استعمال کرنے والی قوّتیں اپنے وقتی فوائد کے لیے ان سے کام تو لے لیتی ہیں، لیکن ان کی جذباتیت کے نتائج نسلوں کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ کیا یہ بات کسی کے ذہن میں نہیں آتی کہ دو نیوکلیئر پڑوسیوں میں’’میڈیائی جنگ‘‘آگ و خون کی ایسی بارش برسا سکتی ہے، جس کا کوئی مُلک تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔
سوویت یونین نے ٹوٹنا قبول کر لیا، لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا نام تک نہیں لیا۔غزہ اور یوکرین میں جنگ سے ہونے والی تباہی دیکھیں۔اس سے ذرا پہلے شام کے ساڑھے پانچ لاکھ شہریوں کا قتلِ عام اور ایک کروڑ سے اوپر مہاجرین کی حالتِ زار کا جائزہ لیں۔افغانستان ہی کو دیکھ لیں، جہاں طالبان کی فتح کا جشن منایا گیا، لیکن آج کیا دنیا میں کسی کو پروا ہے کہ جنگ نے اُنہیں غربت کی کس دلدل میں دھکیل دیا، اب کوئی اُنھیں بھیک تک دینے کو تیار نہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی پہلے دن ہی سے ہے۔یہ دشمنی ایک دن میں ہوئی اور نہ ہی ایک آدھ دن میں ختم ہوسکتی ہے۔اگر دیکھا جائے، تو بھارت پر ہر وقت جنگی جنون سوار رہتا ہے، خاص طور پر جب وہاں انتخابات ہو رہے ہوں، تو پاکستان کے خلاف ضرور ماحول بنایا جاتا ہے تاکہ عوام کے جذبات بھڑکا کر اُن سے ووٹ اینٹھے جاسکیں۔
پاکستان کے ایک سابق مشیرِ سلامتی امور نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے لیے سب سے اچھا راستہ یہی ہے کہ بات چیت کے ذریعے اپنے تنازعات طے کرلیں، وگرنہ ان کے پاس اتنے خطرناک ہتھیار ہیں کہ یہ ایک دوسرے کو تباہ کردیں گے۔ جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک میں150کروڑ سے زیادہ لوگ رہتے ہیں۔
بھارت میں پاکستان کے خلاف جس جنگی نظریے یا’’وار ڈاکٹرائن‘‘ کا شہرہ ہے، اسے’’کولڈ اسٹارٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارتی ماہرینِ جنگ اِس نظریے کے تحت پاکستان کی نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت روکنا چاہتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ اگر روایتی ہتھیاروں جیسے لڑاکا طیاروں، ٹینکس، میزائلز، ڈرونز اور آرٹلری کے ذریعے جنگ لڑی جائے، تو پاکستان کو نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔
بھارت کے پاس اندازاً 14لاکھ فوج ہے، جسے موبلائز کرنے میں بہت وقت درکار ہوتا ہے کہ فوجوں کی نقل وحرکت ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے۔ پہلے طیارے، پھر آرمرڈ ڈویژن، پھر آرٹلری، پھر انفنٹری، سپلائی اور میڈیکل۔ اِسی لیے بھارت نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن اپنایا ہے۔اِس ضمن میں دو امور اہم ہیں۔ ایک تو حیرت یا سرپرائز کا عُنصر، دوسرا بہت ہی تیز ایکشن، یعنی ہدف کو نشانہ بنایا اور واپس پلٹ گئے۔ اِس طرح دشمن کو بڑی جنگ یا جوابی کارروائی سے روکا جائے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی نوبت نہ آنے دی جائے۔
جب تک سفارت کاری عمل میں آئے، اُس وقت تک دشمن کو غیر معمولی نقصان پہنچ چُکا ہو۔یہ ڈاکٹرائن بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد تشکیل دی گئی۔پاکستان نے اس کے جواب میں ٹیکٹیکل نیوکلیئر ویپن کی اسٹریٹیجی اپنائی۔اس ڈاکٹرائن کی بنیاد وہ چھوٹے نیوکلیئر ہتھیار ہیں، جو125سے150گرام وزنی ہیں۔ یہ کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلز کے ذریعے دشمن پر وار کرتے ہیں یا طیاروں سے پھینکے جاسکتے ہیں۔
ان ٹیکٹیکل ہتھیاروں کا نقصان محدود ہے اور یہ دشمن کی اگلی صفوں کو اِس قدر نقصان پہنچا دیتے ہیں، جن کے بعد وہ جنگ کے اگلے قدم سے متعلق سو مرتبہ سوچتا ہے اور اِس دوران ثالثی بھی حرکت میں آسکتی ہے۔اِن ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں کا ہدف دشمن کی فوج ہوتی ہے، نہ کہ اُس کے شہری۔واضح رہے، ان ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیاروں کے مقام پر برسوں سے بحث جاری ہے، تاہم انہیں اب تک استعمال نہیں کیا گیا۔
اِنہیں’’نان اسٹریٹیجک ہتھیار‘‘بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ ان کی مار صرف میدانِ جنگ تک محدود ہے، لیکن ٹیکٹیکل ویپنز بہرحال نیوکلیئر ہیں اور اِن سے پھیلنے والی تاب کاری کا نقصان کس نوعیت کا ہو سکتا ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔پھر ماہرین اِس طرح کے ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں باقاعدہ نیوکلیئر جنگ چِھڑنے کے خدشات کا بھی اظہار کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے لیے سب سے بہترین راستہ کیا ہوسکتا ہے۔اِس سوال کا جواب کون دے گا کہ کیا یہ دونوں ممالک اِسی لیے وجود میں آئے تھے،مشترکہ آقا سے آزادی حاصل کی تھی کہ ایک دوسرے کو تباہ کردیں اور وہ بھی قیادتوں کی حماقتوں، غلطیوں، نااہلیوں اور ذاتی اَنا کی بنا پر۔ کیا واقعی ہم دوسری صدی کے 25ویں سال میں رہ رہے ہیں، جہاں ہر مُلک میں تعمیر و ترقّی کا شور ہے، مگر اِن دونوں ممالک کے عوام خوش حال زندگی کی تلاش میں اپنے اپنے ممالک سے بھاگ رہے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ بھارت خُود پر طاری جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوئی تدبیر کرے تاکہ جنوبی ایشیا کا یہ خطّہ بھی جنگ و جدل سے نکل کر ترقّی و خوش حالی کی راہ پر گام زن ہوسکے۔