سرطان ... پانچ عوامل سے احتیاط، 50 فیصد تحفظ

February 05, 2023

عموماً لوگ سرطان( کینسر) کا نام سُنتے ہی سخت خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ یہ اُن امراض میں سے ایک ہے، جو بہت خطرناک اور تکلیف دہ ہیں۔ اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ انسان کو کوئی بھی بیماری لاحق ہو جائے، وہ خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات زندگی تک سے مایوس ہو جاتا ہے اور جب بات سرطان کی ہو، تو خوف، پریشانی اور تکلیف کئی گُنا بڑھ جاتی ہے۔ نہ صرف مریض بلکہ اُس کی پوری فیملی ایک کرب کی سی کیفیت سے گزرتی ہے، لیکن اِس سارے پریشان کُن منظر میں اُمید افزا پہلو یہ ہے کہ تحقیق، معلومات اور ٹیکنالوجی کی اِس دنیا میں اب سرطان جیسی خطرناک بیماری بھی ناقابلِ علاج نہیں رہی۔ نہ صرف سرطان کی تکلیف کم کی جا سکتی ہے بلکہ بروقت تشخیص اور مکمل علاج کروایا جائے، تو مریض مکمل صحت یاب بھی ہو جاتا ہے۔

اِسی بنا پر طبّی ماہرین متفّق ہیں کہ جس قدر جلد اِس مرض کی تشخیص ہوگی، اُسی قدر کام یاب علاج ممکن ہو سکے گا۔ اِس ضمن میں اُن وجوہ اور محرّکات سے واقفیت ضروری ہے، جو سرطان کا باعث بنتے ہیں۔ایسی عادات کو اپنے روز مرّہ معمولات کا حصّہ بنائیں، جو کسی بھی مہلک بیماری، بالخصوص سرطان سے بچاؤ میں معاون و مددگار ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک مخصوص ساخت اور جسامت کے ساتھ پیدا کیا ہے، جس میں خلیوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

اگر یہ خلیے کسی بھی وجہ سے سائز یا تعداد میں غیر معمولی طور پر بڑھنے لگیں، تو عموماً جو مرض جنم لیتا ہے، وہ سرطان کہلاتا ہے۔ سرطان کا تعلق کسی خاص عُمر یا جنس کے ساتھ مشروط نہیں۔یہ چھوٹے سے بچّے کو بھی ہو سکتا ہے، کسی جوان کو بھی اور کوئی بزرگ بھی اس کا نشانہ بن سکتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور یہ سَر سے لے کر پاؤں تک انسان کے کسی بھی حصّے کو اپنا ہدف بنا سکتا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت نے سرطان کو دنیا بَھر میں ہونے والی اموات کی بڑی وجہ قرار دیا ہے اور اعداد و شمار کے مطابق، سال 2020ء میں تقریباً 10ملین اموات، یعنی ہر چھے میں سے ایک موت سرطان کی وجہ سے ہوئی۔

سرطان کی اقسام

سرطان کی بہت سی اقسام ہیں۔ نئے کیسز کے اعتبار سے سال 2020ء میں جو سرطان عام رہے، اُن میں بریسٹ کینسر (2.26 ملین کیسز)، پھیپھڑوں کا سرطان (2.21 ملین کیسز)، بڑی آنت اور مقعد کا سرطان (1.93 ملین کیسز)، پروسٹیٹ (مردانہ غدود) کا سرطان (1.41 ملین کیسز)، جِلد کا سرطان (1.20ملین کیسز) اور معدے کا سرطان(1.09 ملین کیسز) شامل ہیں۔ سرطان کی وہ اقسام جو کہ سال 2020ء کے دَوران کسی بھی مریض کی موت کا سبب بنیں، اُن میں پھیپھڑوں کا سرطان(1.80 ملین اموات)، بڑی آنت اور مقعد کا سرطان(916,000 اموات)، جگر کا سرطان(830,000 اموات)، معدے کا سرطان (769,000 اموات) اور بریسٹ کینسر (685,000 اموات) شامل ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق، ہر سال تقریباً400,000 بچّے سرطان کا شکار ہوتے ہیں۔ مختلف ممالک میں سرطان کی عام اقسام کا تناسب مختلف ہے۔ اگر ہم پاکستان میں دیکھیں، تو مَردوں اور خواتین میں مشترکہ طور پر پانچ بڑے عام کینسرز میں مَردوں میں منہ کا سرطان سرِ فہرست ہے، جس کا کینسرز میں تناسب 12.9% ہے۔ مَردوں میں پائے جانے والے دیگر عام کینسرز میں بالترتیب پھیپھڑے، خوراک کی نالی کے اوپری حصّے، بڑی آنت و مقعد اور خون کے کینسرز شامل ہیں۔ خواتین میں بریسٹ کینسر سب سے عام ہے، جس کا کینسرز میں تناسب 28.7 فی صد ہے۔ خواتین میں پائے جانے والے دیگر عام کینسرز میں منہ، بچّہ دانی، خوراک کی نالی کے اوپری حصّے اور بیضہ دانی کے کینسرز شامل ہیں۔ ذیل میں ہم تین بڑے کینسرز کی وجوہ اور اہم عوامل کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔

منہ کا سرطان

منہ کا سرطان 90فی صد ایسے افراد کو ہوتا ہے، جو پان، چھالیا، گٹکے، تمباکو، سگریٹ اور شراب کا کثرت سے استعمال کرتے ہوں۔ ایسے لوگ درحقیقت اپنے لیے خود سرطان خریدتے ہیں۔ اِس بیماری میں مبتلا افراد کو منہگے آپریشن اور ریڈیائی شعاؤں کے صبر آزما اور تکلیف دہ پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے، مگر تمام تر علاج کے باوجود بھی40, 45 فی صد مریض جانبر نہیں ہو پاتےاور جو 50-55 فی صد افراد اِس مرض سے بچ جاتے ہیں، اُنہیں بھی ایک مشکل زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس ناک عمل یہ ہے کہ شفا یاب افراد میں سے کچھ علاج کے بعد دوبارہ چھالیا وغیرہ کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس سے منہ، گلے اور کھانے کی نالی میں دوسرے کینسرز کا خطرہ منڈلانے لگتا ہے۔

بریسٹ کینسر

بریسٹ کینسر کو ابتدائی اسٹیج پر تشخیص کر لیا جائے، تو اس پر مکمل طور پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اِس ضمن میں درج ذیل رہنما اصول ابتدائی تشخیص میں انتہائی مددگار ہیں:(1) جب کسی خاتون کی عُمر 20سال ہو جائے، تو اُسے ہر مہینے اپنی بریسٹ کا خود معائنہ کرنا چاہیے۔ (2) جب عُمر20 سے 39سال کے درمیان ہو، تو اُسے ہر تین سال میں ایک مرتبہ ڈاکٹر سے معائنہ کروانا چاہیے۔(3) جب عُمر 40سال سے زائد ہو جائے، تو اُسے سال میں ایک مرتبہ ڈاکٹر سے معائنہ اور میمو گرافی کروانی چاہیے۔

بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات میں گلٹی کا بننا ایک اہم علامت ہے۔ اس کی صحیح وجہ تو معلوم نہیں، تاہم کچھ خطرہ بڑھانے والے اسباب اِس کا باعث ہو سکتے ہیں۔جیسے:

(1) اگر خاندان میں کسی کی نانی، خالہ، والدہ یا بہن کو یہ بیماری ہو۔(2) اگر خواتین میں مخصوص ایّام (Menstrual cycle) جلد، یعنی گیارہ سال کی عُمر سے پہلے شروع ہو جائیں اور طویل عُمر تک جاری رہیں۔(3) اولاد کا نہ ہونا یا پہلا بچّہ 30سال کی عُمر کے بعد ہونا، کیوں کہ یہ خواتین بھی زیادہ عرصے تک زنانہ ہارمون ایسٹروجن کے زیرِ اثر رہتی ہیں۔(4) موٹاپا اور آرام دہ زندگی، جس میں جسمانی سرگرمیاں شامل نہ ہوں۔(5) ہارمونز پر مشتمل ادویہ کا استعمال اور شراب نوشی۔

پھیپھڑوں کا سرطان

پھیپھڑوں کے سرطان سے متعلق ایک اہم بات تو یہ ہے کہ یہ ایک ایسا سرطان ہے، جس کی کم ازکم ایک حتمی وجہ تو معلوم ہے اور وہ ہے، تمباکو نوشی۔تمباکو نوشی کے عادی افراد میں پھیپھڑوں کے سرطان کا امکان50 فی صد بڑھ جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تمباکو نوشی سے پرہیز کر کے پھیپھڑوں کے سرطان کے امکانات کو90 فی صد کم کیا جا سکتا ہے۔ اکثر اوقات پھیپھڑوں کے سرطان کی ابتدا کسی علامت کے بغیر ہوتی ہے اور پھر بعض دوسری وجوہ کی بنا پر پھیپھڑوں کے سرطان کی تشخیص ہوتی ہے۔

کئی بار سینے کے ایکسرے یا کسی اور وجہ سے ہونے والے سی- ٹی اسکین ہی سے سرطان کا پتا چلتا ہے، لیکن زیادہ تر افراد میں پھیپھڑوں کے سرطان کی علامات مختلف شکلوں میں ظاہر ہو جاتی ہیں، جن میں مسلسل کھانسی، کھانسی کے ساتھ خون کا آنا، آواز میں تبدیلی، سانس لینے میں دشواری، سانس میں خرخراہٹ اور وزن میں متواتر کمی شامل ہیں۔

اگر علاج کے باوجود کھانسی میں کوئی بہتری نظر نہ آئے اور تھوک میں خون بھی آنا شروع ہو جائے، تو یہ پھیپھڑوں کے سرطان کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے۔ ایسی صُورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔ شہروں کے لوگوں میں پھیپھڑوں کے سرطان کا رسک اِس لیے بھی زیادہ ہے کہ عمومی طور پر شہری ماحول دیہات کی نسبت زیادہ آلودہ ہے، جب کہ تمباکو نوشی بھی عام ہے۔

سرطان کے خطرے کے عوامل

عالمی ادارۂ صحت نے سرطان کا سبب بننے والے درج ذیل پانچ اہم عوامل کی نشان دہی کی ہے۔

(1)تمباکو کا استعمال(2) الکحل کا استعمال(3) غیر صحت بخش خوراک(4) جسمانی غیر فعالیت(5) فضائی آلودگی۔ یاد رہے، ان عوامل سے دور رہ کر30 سے 50فی صد کینسرز سے تحفّظ ممکن ہے،جب کہ جو دیگر احتیاطی تدابیر بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، اُن میں سرطان کی جلد تشخیص، مریض کی دیکھ بھال اور مناسب علاج معالجہ شامل ہیں کہ اگر بروقت تشخیص اور مناسب علاج مہیا ہو جائے، تو سرطان کو شکست دینے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔

تشخیص و علاج

عموماً سرطان کی تشخیص کے لیے biopsy یا مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ جسم کے متاثرہ حصّے سے چھوٹا یا بڑا ٹکڑا نکالنے کو بائیو آپسی کہا جاتا ہے، جس کے بعد اس ٹکڑے کا مائکرو اسکوپ کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے کہ اس میں سرطان موجود ہے یا نہیں۔ بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے مکمل معائنہ، الٹر اساؤنڈ، ایکسرے یا میمو گرافی کروائی جاتی ہے اور پھر سرطان کی موجودگی کی تصدیق کے بعد اس بات کا تعیّن کیا جاتا ہے کہ آیا سرطان محدود ہے یا دیگر اعضاء تک پھیل چُکا ہے،جس کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ، ایکسرے اور سی- ٹی اسکین سے مدد لی جاتی ہے۔

اگلے مرحلے پر staging کی جاتی ہے۔ staging کرتے ہوئے ٹیومر کا سائز، پھیلاؤ، مریض کی عمومی صحت، آپریشن کے لیے اس کی سکت اور طاقت کا تعیّن کیا جاتا ہے اور اس کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ سرطان کا علاج تین طرح سے ممکن ہے۔(1) سرجری(2) کیمو تھراپی(3) ریڈی ایشن یا شعاؤں کے ذریعے۔اگر ٹیومر اپنی جگہ محدود اور سائز میں چھوٹا ہو، تو سرجری سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ سرجری کی صُورت میں مرض کے مکمل خاتمے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

اگر ٹیومر پھیل چُکا ہو اور سرجری کے ذریعے علاج ممکن نہ ہو، تو کیمو تھراپی کی جاتی ہے، جس میں دوا کے ذریعے مرض کا علاج کیا جاتا ہے، اس میں انجیکشن اور ادویہ(tablets)دونوں شامل ہوتی ہیں، جنہیں مناسب وقفوں سے مریض کو دیا جاتا ہے۔ یہ امر پیشِ نظر رہے کہ کیمو تھراپی کے کچھ side effectsبھی ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ طریقِ علاج اِس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اس مرحلے پر اصل مقصد مریض کی جان بچانا ہوتا ہے۔

سرطان کے علاج کا تیسرا طریقہ Radiation therapy ہے، جس میں شعاؤں کے ذریعے سرطان کی سیلز کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ سرطان کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے کہ اس کے علاج کے لیے کہاں، کون سا طریقہ یا ایک سے زائد طریقے استعمال کیے جائیں۔ بعض کیسز ایسے ہوتے ہیں، جہاں سرجری کا کوئی کردار نہیں ہوتا اور کیمو تھراپی یا ریڈیو تھراپی ہی سے مریض مکمل طور پر شفایاب ہو جاتے ہیں۔

سرطان کی روک تھا م میں مددگار عوامل

تمباکو کا استعمال نہ کرنا…جسم کے وزن کو بڑھنے نہ دینا…پھلوں اور سبزیوں سمیت صحت بخش غذا کا استعمال…باقاعدگی کے ساتھ جسمانی سرگرمی، ورزش…شراب نوشی سے پرہیز…HPV اور ہیپاٹائٹس بی کے خلاف ویکسی نیشن (اگر تجویز کی گئی ہو)…سورج کی شعاؤں کے مضر اثرات سے تحفّظ…علاج کی غرض سے شعاؤں کا محفوظ استعمال…فضائی آلودگی سے بچاؤ۔یاد رہے، سرطان خطرناک بیماری ضرور ہے، لیکن اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بروقت تشخیص اور معیاری علاج کے ذریعے اس سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔

اِس سال 4 فروری کو سرطان کے عالمی دن کے حوالے سے’’ Close the care gap ‘‘کو مرکزی موضوع بنایا گیا اور اِس موضوع کا تقاضا ہے کہ دنیا بَھر میں سرطان کے مریضوں کے علاج اور دیکھ بھال میں جو فرق روا رکھا جاتا ہے، اُسے ختم کر کے تمام مریضوں کو یک ساں درجے کی سہولتیں مہیّا کی جائیں۔ (مضمون نگار، سکھر سے تعلق رکھتے ہیں، پیشے کے لحاظ سے کنسلٹنٹ ڈرماٹالوجسٹ ہیں۔ پبلک ہیلتھ کے کئی منصوبوں میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی صدر بھی ہیں)