انتخابات سے فرار، کب تک؟

February 07, 2023

پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جو ووٹ کی طاقت سے وجود میں آئی۔ووٹ کے ذریعے قائم ہونے والی اس مملکت میں آج ایک ایسا تماشا جاری ہے جسے کسی طور بھی جمہوری روایات کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایک طرف تو سیاسی جماعتیں جمہوریت سے محروم ہیں تو دوسری طرف یہی جماعتیں عوام کو بھی ووٹ دینے کے جمہوری حق سے محروم کرنے کے درپے ہیں۔ عوام کی عدالت میں جانے کا خوف ایک آسیب بن کر حکمراں اتحاد کے رہنماؤں کے سروں پر سوار ہو چکا ہے۔انتخابات سے فرار کی کوشش سے تمام جمہوری، آئینی اور دستوری روایات سے بھی انحراف کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمان آج 60فیصد سے زائد عوامی نمائندگی سے محروم ہے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کی جا چکی ہیں۔ آئینی تقاضا تو یہ تھا کہ اسمبلیاں جوں ہی تحلیل کی گئیں اسکے فوراً بعد ہی دستور کے مطابق انتخابات کی تاریخ دے دی جاتی۔

لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ نہ تو جمہوری روایات کا پاس رکھا جا رہا ہے اور نہ ہی دستوری تقاضوں کا۔آج سے دس ماہ قبل جب تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار تھی تب ملک میں افراتفری کا ایسا ماحول نہ تھا کہ حکومت تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی۔معاشی میدان میں تحریک انصاف کی حکومت کی بہترین مینجمنٹ کا اظہارکورونا کے دنوں میں ہوا جب نہ صرف حکومتی نظم و نسق بحال رکھا گیا بلکہ عوام کی معاشی ضروریات پورا کرنے کیلئے مثبت اقدامات کئے گئے۔پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل تھاجہاں ’’کورونا مینجمنٹ‘‘کے حوالے سے ایک طرف تو عالمی ادارۂ صحت کی گائیڈ لائنز پر مکمل عمل کیا گیا جب کہ دوسری طرف عام آدمی کے روزگار پر بھی کوئی زد نہ پڑی۔لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن غریب آدمی کے روزگار پرکوئی قدغن عائد نہ کی گئی۔ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر بھی تسلی بخش تھے۔ اگرچہ عالمی کساد بازاری کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے تھے،لیکن ملک میں معاشی ایمرجنسی کے حالات نہ تھے۔11جماعتی اتحاد نے’’رجیم چینج آپریشن‘‘کے دوران وفاق میں اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن، معاشی معاملات کو درست سمت پر ڈالا جا سکا اور نہ ہی سیاسی میدان میں استحکام پیدا ہو سکا۔جب حالت یہ ہو جائے کہ دوست اعتماد کرنا چھوڑ دیں اور غیر بھی نگاہیں پھیر لیں تو پھر لازمی طور پر اپنی ذاتی خواہشات اور انا کی قربانی دے کر عوام کی عدالت میں جانا ضروری ہو جاتا ہے۔آج معاشی طور پر پاکستان بدترین بدحالی کا شکار ہے۔ڈالر غیر معمولی اڑان پکڑ چکا ہے۔کبھی تو یوں لگتا ہے کہ پاکستان کا سرکاری بینک، ڈالر مافیا کے ساتھ مل چکا ہے۔ ڈالر کا جیسا بحران اس وقت پاکستان میں دیکھنے کو مل رہا ہے دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسی کیفیت نہیں۔ یہاں تک کہ افغانستان میں بھی ڈالر کے حوالے سے وہ ’’مارا ماری‘‘ دیکھنے میں نہیں آ رہی جو پاکستان میں پائی جاتی ہے۔ پی ایس او کی ایل سی نہ کھلنے کی وجہ سے ملک میں تیل کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔اب تو قوم میں احتجاج کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ملک میں سفید پوش طبقہ تو ختم ہو کر رہ گیا ہے۔غریب غریب تر ہوچکا ہے اور امیر، امیر ترین ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف کی مبینہ شرائط پر اگرمن و عن عمل کیا گیا تو ایسا طوفان آئیگا جسکا تصور ہی دل و دماغ کو مائوف کرنے کیلئے کافی ہے۔ معاشی دہشت گردی کیساتھ ساتھ عوام کا جان ومال بھی داؤ پر لگ چکا ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر سر اُٹھانا شروع کردیا ہے،عوام کا اعتمادحکومتی اتحاد سے اٹھ چکا ہے۔شہباز حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کی بجائے سارا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا ہے۔وزیروں اور مشیروں کی فوج ظفر موج میں دن بدن اضافہ کیا جا رہا ہے اور مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہیںاور اسکی ترجیحات دیکھیں تو سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔جس حکومت کوڈالر کو قابو کرنا تھا وہ شیخ رشید کو قابو کرنے میں مصروف ہے۔جن حکمرانوں کو مہنگائی کو لگام ڈالنی تھی وہ فواد چوہدری کو پابندِ سلاسل کرنے میں مصروف ہیں،جس حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں عوام کو ریلیف دینا تھا وہ زمان پارک کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔حکومت کے عوام دشمن اقدامات کے باعث اب عوام میں غصہ بڑھ رہا ہے۔یہ امر جمہوری روایات کا حصہ ہے کہ جب حالات قابو میں نہ آرہے ہوں تو اس کا آخری حل دوبارہ عوامی حمایت حاصل کرنا ہوتا ہے۔جمہوری ممالک میں عین جنگوں کے ایام میں بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں،2008ءکے انتخابات تو کل کی بات ہے کہ جب پورے ملک کی فضا بم دھماکوں کی بدبو سے متعفن تھی۔ محترمہ بینظیر بھٹو جیسی شخصیت شہید کر دی گئی تھیں لیکن پھر بھی انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا گیا تھا،امن و امان کی صورتحال کا بہانہ بنا کر انتخابات کو ملتوی کرنا ایک انتہائی خطرناک عمل ہوگا جسے عوام برداشت نہیں کریں گے، آج پاکستان کا ہر شہری چاہ رہا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے اپنی رائے کا اظہار کرے۔ موجودہ حکمراں اتحاد شاید اپنی کارکردگی کے باعث عوام میں جانےسے گھبرارہا ہے،مسلم لیگی رہنماؤں کے کمزور جلسوں نے بھی حکومت کو آئینہ دکھا دیا ہے،حکومتی اتحاد کے جلسے کامیاب ہوں یا ناکام، حکمرانوں کی پالیسیاں کامیابی سے ہمکنار ہو ںیا ناکامی سے دوچار ہوں،اب واحد حل نئے انتخابات کا انعقاد ہی ہیں۔ مسلم لیگ اور حکمراں اتحاد کو جمہوری روایات کے مطابق انتخابات کا اعلان کرنا چاہئے کیوں کہ تازہ مینڈیٹ کا حصول ہی واحد آپشن ہے، انتخابات سے راہِ فرار ملک اور جمہوریت کیلئے بڑی بد قسمتی ہوگی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)