پاکستان کے معاشی بحران کا تجزیہ

February 13, 2023

پاکستان جس بحران میں پھنس گیا ہے ۔ اب اس سے نمٹنے کی صلاحیت اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں دونوں میں نہیں رہی ۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہیئت کوتبدیل کرنا فوری طور پر ممکن نہیں لیکن کیا ملک میں ایسی نئی سیاسی قوت ابھرنے کا امکان موجود ہے ، جو اپنے طور پر بڑے اور انقلابی فیصلے کر سکے؟

میرے خیال میں نئی سیاسی قوت ابھرنے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کی ضرورت بہت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور حالات بھی بن رہے ہیں لیکن اس امکان یا امید میں حالات سے لاتعلق رہنا تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مطعون کرنا یا پھر غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھنا درست نہیں ہو گا ۔ اس بحران میں جو سوچ پیدا کی جا رہی ہے یا پیدا ہو رہی ہے ، وہ انتہائی خطرناک ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی حکومتیں وہ نہیں کر سکی ہیں، جو انہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ طفیلی معیشت میں وہ کچھ نہیں کر سکتیں ، جسے عالمی مالیاتی ادارے اپنی ڈکٹیشن پر چلاتے ہوں ۔ سیاسی حکومتیں اس بحران کی ذمہ دار بھی نہیں ہیں ، جس پر وہ تنقید اور نفرت کی سزاوار ہیں ۔ تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت لانے یا مسلم لیگ (ن) کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت لانے یا کسی بھی سیاسی حکومت میں بار بار وزرائے خزانہ تبدیل کرنے سے معیشت درست نہیں ہو گی ۔ سیاسی حکومتوں کی جگہ آمرانہ یا مطلق العنان فوجی حکومتیں قائم کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا ۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوجی حکومتوں کے ادوار میں قدرے معاشی استحکام رہا ہے لیکن اس عارضی معاشی استحکام یا کسی حد تک سرمائے کی عارضی فراوانی سے ہی اصل تباہی آئی ۔ مسئلے کا بتدریج حل صرف جمہوری استحکام سے ہی ممکن ہے ۔ پاکستان کی فوجی حکومتوں کو بہت زیادہ بیرونی امداد ملی ہے ۔ یہ امداد پاکستان کی معاشی ترقی کے لئےنہیں بلکہ سکیورٹی مقاصد کے لئے ملی ہے ۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو سیکورٹی سروسز کا بڑا معاوضہ دیا جاتا رہا ہے ۔ یہ معاوضہ بھی زیادہ ترقرضوں کی صورت میں تھا ۔ پاکستان کے پہلے فوجی آمر فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں پاکستان اس خطے میں کمیونزم کے پھیلاو کو روکنے کے لئے اہم سیکورٹی اسٹیٹ بنا رہا ۔ پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے عالمی دفاعی معاہدوں کا رکن تھا ۔ پاکستان کو امریکہ اور اس کے حواری سرمایہ دار ملکوں سے دل کھول کر ڈالرز دیئے گئے اور پاکستان پر قرض کا بوجھ بڑھتا رہا ۔ اس خوش حالی نے پاکستان کی معیشت کا قومی جوہر ( National Character ) ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا اور ایک قومی معیشت طفیلی معیشت میں تبدیل ہو گئی ۔ قومی سرمایہ داری کی بجائے اجارہ دار اور کرونی (Crony ٌ) سرمایہ داری نے جنم لیا ۔ صنعت اور تجارت مخصوص لوگوں اور گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی ۔ زراعت کو شعوری طور پر ابھرنے نہیں دیا گیا ۔ زرعی زمینیں بھی مخصوص لوگوں اور گروہوں میں تقسیم کر دی گئیں ۔ معاشی عدم تقسیم میں اضافہ ہوا ۔ صوبوں اور چھوٹے طبقات میں احساس محرومی اور نفرت نے جنم لیا اور سانحہ 16 دسمبر 1971 رونما ہوا ۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں جنگ آنکھیں بند کرکے لڑی ۔ اس وقت بھی ڈالرز کا بڑا بہاو پاکستان کی طرف رہا ۔ اس دور کی خوش حالی نے بھی نہ صرف غیر قومی طفیلی معیشت کو مضبوط کیا بلکہ کرونی سرمایہ داری کی جڑیں بھی گہری کیں اور پاکستانی معیشت کی اپنی نمو (ترقی ) کی صلاحیت کا خاتمہ کر دیا ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں جھونکنے پر سیکورٹی سروسز کا بڑا معاوضہ امداد کم قرضے کی شکل میں ملا ۔ اس دور میں بہت ڈالرز آئے ، جو بہت کم شرح میں ترقیاتی کاموں پر بھی خرچ ہوئے ۔ ملنے والا زیادہ سرمایہ سیکورٹی مقاصد کے لئے خراچ ہوا ۔ اس دور کی نام نہاد خوشحالی نے معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

جب عالمی طاقتوں نے آمروں کے ذریعہ اپنے مقاصد پورے کرلئے ، ان کی مزید ضرورت نہ رہی اور ڈالرز کی فراہمی بھی انہوں نے کم کر دی تو پھر پاکستان میں سیاسی حکومتیں قائم کی گئیں یا ’’ جمہوریت ‘‘ بحال کی گئی ۔ اگرچہ جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریکیں بھی چلیں لیکن جمہوریت کی بحالی ان تحریکوں کی وجہ سے نہیں ہوئی ۔ سیاسی اور معاشی طاقت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہی ۔ اس لئے سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑا کر اپنی شرائط پر ان سے سمجھوتے کرتی رہیں ۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔ یہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری بھی ہے اور ان کا قصور بھی ہے ۔ لیکن اس کی وجہ سے موجودہ معاشی تباہی نہیں ہے ۔ غیر یقینی سیاسی صورت حال کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کا نہ تو کوئی پروگرام وضع ہو سکا اور نہ ہی وہ اپنے کردار کا تعین کر سکیں ۔ سیاست دانوں نے کرپشن بھی کی لیکن معاشی بحران کی جو شدت یا حجم ہے، اس میں کرپشن کا بھی بہت معمولی حصہ ہے ۔ سیاسی حکومتوں کو اس وقت موقع دیا جاتا ہے ، جب پاکستان کے سیکورٹی کردار کی ضرورت نہیں رہتی ، بیرونی امداد اور قرضے روک لئے جاتے ہیں اور پاکستانی معیشت پر دباو بڑھ جاتا ہے ۔ معیشت کو ٹھیک کرنے کی سیاسی حکومتیں اگر کوشش کرتی ہیں تو انہیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے ۔ جب خطے میں کوئی بڑا بحران پیدا ہوا اور پاکستان کی عالمی طاقتوں کو اس طرح ضرورت پڑی ، جس طرح ایوب خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کو حکومت میں لاکر پاکستان نے ضرورت پوری کی تھی ۔ اس سے پاکستان کی معیشت کو عارضی لیکن مزید تباہ کن ریلیف مل سکتا ہے ۔ میرے خیال میں اب شاید ایسے حالات پیدا نہ ہوں ۔ عالمی طاقتیں اب غیر ریاستی عناصر سے کم خرچ میں یہ کام لے رہی ہیں ۔ یہ ایک الگ اور متوازی معیشت ہے ۔ یہ دہشت گردی اور بدامنی کی معیشت ہے ، جو پاکستان کی طفیلی معیشت کو بھی کھا رہی ہے ۔ اب نہ تو ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں کہ پاکستان عالمی طاقتوں کی پہلے کی طرح ضرورت بنے اور نہ ہی کوئی انقلابی سیاسی قوت ابھرنے کا فوری امکان ہے۔

پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے ۔ موجودہ سیاسی جماعتیں تصادم سے گریز کریں کیونکہ انہیں ہی حالات سے نمٹنا ہے ۔ یہ مل کر کسی قومی ایجنڈے پر بات کریں اور میثاق معیشت کریں ۔ پورے ریاستی اور معاشی ڈھانچے کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ بتدریج اس پر کام کیا جائے ، جو اخراجات میں بڑی کٹوتی سے شروع ہو ۔ پھر لوگوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور نچلی سطح پر لوگوں کی معاشی سرگرمی پر سرمایہ کاری کی جائے ۔ اجارہ دار اور کرونی سرمایہ داری کا خاتمہ ، سیاسی طاقت عوام کو منتقل کرنے اور طفیلی پن کا خاتمہ آخری اور بڑے فیصلے ہیں ، جو سیاسی اور جمہوری استحکام کے اگلے مرحلے میں ممکن ہوں گے ۔ اگر اب پاکستان پٹڑی سے اترا تو اسے پہلے کی طرح دس بارہ سال کے وقفے کے بعد واپس پٹڑی پر لانا مشکل ہو گا ۔ اس وقت تک شاید ٹریک بھی تبدیل ہو چکے ہونگے۔