آئی ایم ایف اور پاکستان

March 26, 2023

پاکستانی معیشت کی بحالی کیلئے آئی ایم ایف سے ایک ارب بیس کروڑ ڈالر پر مشتمل قرض کی قسط کا اسٹاف لیول معاہدہ کسی طرح ہونے میں نہیں آ رہا جبکہ ملک کی معاشی مشکلات بڑھتی چلی جارہی ہیں۔ فروری کے پہلے عشرے میں مالیاتی ادارے کی ٹیم کی نویں جائزے کیلئے اسلام آباد آمد اور دس روزہ مذاکرات کے بعد توقع تھی کہ اب جلد ہی معاہدہ ہوجائے گا اور متعین رقم مل جائے گی جس کے بعد دوست ملکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھی تعاون کا سلسلہ شروع ہوجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ مالیاتی ادارے کی جانب سے لیت ولعل کا سلسلہ اب تک جاری ہے ۔تازہ ترین پیش رفت عالمی مالیاتی فنڈ کی کمیونی کیشن ڈائریکٹر جولی کوزک کا یہ بیان ہے کہ دوطرفہ شراکت داروں کی جانب سے مالی تعاون کی یقین دہانیوں کے بعدہی پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہو گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشیائی انفرا اسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک اور دیگر دو طرفہ شراکت داروں بالخصوص چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی یقین دہانیوں کے بعد ہی پاکستان کے حوالے سے اگلا قدم اٹھایا جائے گا۔ جب ان سے اس بیان کی وضاحت کیلئے کہا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس انتہائی ضرورت کے اخراجات کے لیے خاطر خواہ رقم موجود ہے، اسٹاف لیول کا معاہدہ اسی وقت ہوگا جب بعض اہم نکات طے پا جائیں گے۔ انہوں نے اگرچہ اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ پاکستانی معیشت کو سست شرحِ نمو اور بلند افراطِ زر جیسے چیلنجوں کا سامنا تباہ کن سیلاب کی وجہ سے ہے لیکن اس کی وجہ سے کسی نرم رویے کا اظہار ان کی طرف سے نہیں ہوا ۔ تاہم چند روز قبل تک اسٹاف لیول معاہدے کے جو امکانات خاصے روشن نظر آرہے تھے ان کے دھندلا جانے کا ایک اور بہت واضح سبب حکومت پاکستان کی حالیہ ایندھن سبسڈی اسکیم ہے جس کے تحت موٹر سائیکل اور رکشہ والوں کیلئے پیٹرول کی فی لیٹر قیمت سو روپے کم رکھی گئی ہے۔ وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر مصدق ملک اگرچہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایسٹر پیریزروئز نے صراحت کی ہے کہ معاہدے پر دستخط سے قبل ایندھن سبسڈی اسکیم پر اتفاق ضروری ہے‘ فنڈ حکومت سے ایندھن اسکیم کی تجویز کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کرے گا، بشمول یہ کہ اس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے گا اور غلط استعمال کو روکنے کے لیے کیا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ دوسری جانب اعلیٰ سرکاری ذرائع نے جمعہ کے روز دی نیوز کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے اعتماد کے فقدان‘فنڈ کے اصلاحاتی پروگرام پر عملدرآمد کیلئے صلاحیت کی کمی اور آئی ایم ایف کے تاخیری حربوں کی وجہ سے اسٹاف لیول معاہدہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے جس کے باعث دونوں فریق اب تک میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیزپر اتفاق رائے میں ناکام ہیں۔ان وجوہ سے 10اپریل 2023ء تک آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ سے منظوری‘ نویں جائزے کی تکمیل اور 1.2ارب ڈالر قسط کے اجراء کی پاکستانی حکام کی کوششوں کو بڑا دھچکا لگا ہے اورمقررہ مدت کے اندریہ عمل مکمل ہونااب تقریبا ً ناممکن نظر آتا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ معاہدے کے حوالے سے حکومتی کارکردگی میں جو خامیاں ہیں نہ صرف یہ کہ انہیں دور کیا جائے بلکہ تمام تر انحصار آئی ایم ایف کے وعدوں پر کرنے کے بجائے تمام متبادل ذرائع سے زرمبادلہ میں اضافے کی کوششیں بھی آخری ممکنہ حد تک تیز کردی جائیں، بیرون ملک پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی غیرقانونی ذرائع سے آمد اورملک سے ڈالر کی اسمگلنگ مکمل طور پر روکی جائے ، نجکاری منصوبوں کی گرد جھاڑی جائے جبکہ ایندھن سبسڈی جیسے اقدامات کرکے معاہدے میں تاخیر کا جواز خود ہی نہ مہیا کرنے سے قطعی گریز کیا جائے۔