سیلاب متاثرین اور عالمی امداد

March 27, 2023

پاکستان کی موجودہ معاشی ابتری کا ایک بنیادی سبب عالمی سطح پر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پچھلے سال بے پناہ بارشوں کی وجہ سے ملک کے تقریباً ایک تہائی حصے میں آنے والا تباہ کن سیلاب ہے۔ آئی ایم ایف کی کمیونیکشن ڈائرکٹر جولی کوزک نے بھی اپنے حالیہ بیان میں اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے لیکن تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی قسط کی طرح سیلاب زدگان کی بحالی کیلئے ڈھائی ماہ پہلے جنیوا میں ہونے والی ڈونرز کانفرنس میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد بھی تاخیر کا شکار ہے۔ کئی ہزار ہلاکتوں، تین کروڑ تیس لاکھ افراد کی خانماں بربادی ، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلوں کی تباہی ، بہت بڑے پیمانے پر سڑکوں سمیت پورے انفرا اسٹرکچر کے خاتمے اور ایک محتاط تخمینے کے مطابق 16 ارب ڈالر کے نقصانات کا سبب بننے والا یہ سیلاب معاشی بحالی کی حکومتی کوششوں کے لیے جتنا بڑا دھچکا ثابت ہوا وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کی خاطر گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان کا دورہ کیا اور پھر سیلاب زدگان کی بحالی کے لئے عالمی برادری کو نہایت مؤثر طور پر متوجہ کیا۔ ان کوششوں کے نتیجے میں جنوری کے دوسرے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر جنیوا میںوزیراعظم شہباز شریف اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی مشترکہ میزبانی میں انٹرنیشنل کانفرنس آن کلائمیٹ ریزیلینٹ پاکستان منعقد ہوئی جس کے شرکاء نے 16 ارب ڈالر کے نقصانات کا نصف فراہم کرنے کی پاکستان کی درخواست پر انتہائی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین سال کی مدت میں 8 ارب کے بجائے تقریباً 10 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کیے۔ اسلامی ترقیاتی بینک کے سوا چار ارب اور عالمی بینک کے دو ارب ڈالر کے وعدوں کے علاوہ ایشیائی ترقیاتی بینک، سعودی عرب، امریکہ، چین، جاپان ، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ملکوں اور اداروں نے خطیر رقوم کا اعلان کیا۔تاہم ایک تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو سیلاب متاثرین کیلئے جنیوا میں کیے گئے وعدوں پر عمل درآمد میں تاخیر کا سامنا ہے۔ رواں مالی سال میں ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے کی توقع تھی لیکن امدادی سامان کے علاوہ اب تک صرف ساڑھے بارہ کروڑ ڈالر ملے ہیں جبکہ 30 جون تک صرف 30 کروڑ ڈالر اور ملنے کا امکان ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی تصدیق کی ہے کہ بین الاقوامی ڈونرز کانفرنس میں کیے گئے وعدوں کا اب تک صرف 40 فی صد پاکستان کو مل سکا ہے۔ماہ رواں کے پہلے ہفتے میں اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک سے نیویارک میں نیوز بریفنگ کے دوران جب پوچھا گیا کہ سیلاب زدگان کیلئے جنوری میں وعدہ کی گئی زیادہ تر رقم کہاں غائب ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ غائب ہے کیونکہ لوگوں نے اب تک نہیں دی۔ ڈونرز کانفرنس میں مالی تعاون کے وعدے کرنے والے ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت سے یقینا پوری طرح آگاہ ہیں کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک جن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں وہ ترقی یافتہ ممالک کے طرز زندگی کا نتیجہ ہے جن میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بنیادی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے جس سے گلیشیر پگھل رہے ہیں جبکہ اس عمل میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد بھی کم ہے۔اسی بنا پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ملکوں اور ان کے مالیاتی اداروں کی جانب سے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے چیلنج سے نمٹنے کی خاطر مالی تعاون خیرات نہیں بلکہ قرض کی ادائیگی کے مترادف ہے ۔اس ذمے داری کے احساس کا تقاضا ہے کہ ڈونرز کانفرنس میں وعدے کرنے والے ملک اور ادارے اپنی یقین دہانیوں کو عملی شکل دینے میں اب مزید تاخیر نہ کریں۔