ڈالر بحران اور بارٹر تجارت

March 27, 2023

پاکستان نے ڈالر کے بحران پر قابو پانے کیلئے امپورٹ پر پابندیاں عائد کی ہیں اور بینکوں کو صرف اہم اشیاء کی LCs کھولنے کی اجازت دی ہے جبکہ اشیاء کی امپورٹ پر پابندی سے سپلائی چین متاثرہوئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق بینکوں سے LCs کھولنے کیلئے کیش مارجن کی شرط ختم کی جارہی ہے۔ حکومت نے ان پابندیوں سے تجارتی خسارے میں کمی تو حاصل کرلی جو گزشتہ 28 مہینوں میں 1.8ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر آگیا ہے لیکن ایکسپورٹس مصنوعات کیلئے ادویات اور ٹیکسٹائل کا خام مال، گاڑیوں کے پرزہ جات اور کھانے پینے کی اشیاء کی امپورٹ میں مشکلات کے باعث ایکسپورٹس میں کمی ہوئی ہے۔ ٹیکسٹائل صنعت ،جس کا ملکی ایکسپورٹس میں 55فیصد سے زیادہ حصہ ہے، کی ایکسپورٹس میں ایک سال میں 30فیصد کمی ہوئی ہے جو فروری 2022 کے 1.7 ارب ڈالر کے مقابلے میں فروری 2023میں کم ہوکر 1.2ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیش نظر ہمیں امپورٹ کیلئے ڈالر میں ادائیگیوں کے بجائے ادائیگی کے دوسرے طریقہ کار کو اپنانا ہوگا۔ حال ہی میں وفاقی وزیر تجارت نوید قمر نے علاقائی تجارت کے فروغ کیلئے ’’بارٹر تجارت‘‘کی منظوری دی اور کراچی میں ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی (TDAP) کے CEO زبیر موتی والا کے ساتھ پریس کانفرنس میں بارٹر تجارت جو اربوں ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، کی تفصیلات سے آگاہ کیا جس سے ملکی ایکسپورٹس کو فروغ حاصل ہوگا۔ وزیر تجارت کے مطابق بارٹر تجارت ایران اور افغانستان کے علاوہ وسط ایشیائی، افریقی ممالک اور مستقبل میں چین تک بڑھائی جائے گی جبکہ بارٹر تجارت میں یورپی یونین، امریکہ، برطانیہ اور مڈل ایسٹ شامل نہیں اور بارٹر صرف ان ممالک سے کی جائے گی جہاں بینکنگ نظام نہیں یا بینکنگ نظام میں مشکلات کا سامنا ہے۔

قارئین! بارٹر ٹریڈ کے ذریعے تجارت میں اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ کیا جاتا ہے جس کی کرنسی یعنی ڈالر میں ادائیگی نہیں کی جاتی۔ علاقائی تجارت میں ہمارے پڑوسی ملک ایران میںتجارت کا بے پناہ پوٹینشل پایا جاتا ہے لیکن ایران پر کئی دہائیوں سے بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں اور پاکستان، ایران کے مابین بینکنگ نظام نہ ہونے کے باعث تجارت کو فروغ نہیں ملا۔ اس کے برعکس بھارت نے ایران کے ساتھ ’’بارٹر ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ سائن کر رکھا ہے جس کی رو سے بھارت، ایران کو چاول سپلائی کرکے اس کے بدلے پیٹرولیم مصنوعات لے رہا ہے جس کے باعث ماضی میں پاکستان کے باسمتی چاول کی ایران کی بڑی مارکیٹ ہاتھ سے نکل گئی تھی تاہم 8 نومبر 2021کو پاکستان اور ایران کے درمیان اشیاء کے بدلے اشیاء کے بارٹر معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت دونوں ممالک نے چاول کی بارٹر ٹریڈ، سرحدی منڈیوں کی تعمیر اور کسٹمز قوانین پر اتفاق کیا تھا۔ پاکستان نے چاول کے علاوہ ٹیکسٹائل، طبی آلات، گوشت اور آم سمیت دیگر اشیاء کو بارٹر تجارت کیلئے تجویز کیا ہے۔ایران اور افغانستان کی پاکستان کے ساتھ کئی ہزار کلومیٹر مشترکہ سرحد ہے جس کے باعث دونوں ممالک بلوچستان کے راستے (NLC) کنٹینرز کے ذریعے قانونی تجارت اور دیگر ذرائع سے اسمگلنگ بھی کرتے ہیں جس سے حکومت کو کسٹم ڈیوٹی اور ریونیو کی مد میں اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ بارٹر تجارت کے ذریعے ہم چاول، ٹیکسٹائل مصنوعات اور دیگر بے شمار اشیاء قانونی طور پر ان ممالک کو سپلائی کرسکتے ہیں اور بدلے میں پیٹرولیم مصنوعات، پلاسٹک، کیمیکلز، بجلی اور گیس وغیرہ لے کر ان کی امپورٹ پر اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچاسکتے ہیں۔ ڈالر میں ادائیگیوں کے دبائو کو کم کرنے کیلئے بارٹر ٹریڈ کے علاوہ کرنسی سواپ (Swap) بھی ادائیگیوں کا ایک موثر نظام ہے جس میں مقامی کرنسی میں اشیاء کی ادائیگیاں کی جاتی ہیں جس سے امپورٹ کا ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر اثر نہیں پڑتا۔ پاکستان نے چین کے ساتھ 2011میں کرنسی سواپ معاہدہ کیا تھا جس کی 2018میں سی پیک کیلئے توسیع کی گئی تھی۔ کرنسی سواپ معاہدے کی رو سے پاکستان چین سے اشیاء کی امپورٹ پر ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں ادائیگی کرتا ہے جو ایک مستحکم کرنسی ہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے4ستمبر 2012کو ترکی کے مرکزی بینک CBRT کے ساتھ 3 سالہ باہمی کرنسی سواپ معاہدہ بھی کیا ہے جس کی رو سے دونوں ممالک ایک ارب ڈالر کے برابر مقامی کرنسی میں تجارت کرسکتے ہیں۔ اشیاء کے بدلے اشیاء یعنی بارٹر تجارت علاقائی تجارت کے فروغ کا ایک کامیاب ماڈل ہے۔ یورپ کے 6ممالک بلجیم، ڈنمارک، فن لینڈ، نیدرلینڈ، ناروے اور سوئیڈن نے پیرس میں INSTEX کے نام سے تجارت کی ادائیگیوں کیلئے ایک کلیئرنگ ہائوس بنایا ہے جس کے ذریعے ایران ان ممالک سے تیل اور دیگر مصنوعات کی بارٹر ٹریڈ کرسکتا ہے۔ INSTEX نظام کو پیرس، لندن اور برلن نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ روس، یوکرین جنگ میں روس پر امریکہ اور مغرب کی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے گیہوں، تیل اور گیس کی مغربی ممالک کو سپلائی میں مشکلات ہورہی ہیں جس کی وجہ سےیہ ممالک اشیاء کے بدلے اشیاء یعنی بارٹر تجارت کو ترجیح دے رہے ہیں۔میں اپنے کالم کے آخر میں وزیر تجارت نوید قمر اور ان کی ٹیم کو پاکستان کی یورپی یونین ڈیوٹی فری ایکسپورٹ کے جی ایس پی پلس معاہدے جو 2023میں ختم ہورہا ہے، میں مزید دو سال توسیع حاصل کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وزیر تجارت نوید قمر کی کاوشوں سے جی ایس پی پلس معاہدے میں مزید 10 سال کی توسیع مل جائے گی۔