عالمی مالیاتی عدم استحکام اور پاکستان

March 28, 2023

پاکستان میں مالیاتی عدم استحکام کے باعث معاشی بحران تشویشناک حدوں کو چھورہا ہے جس کی وجہ سے پوری قوم پریشان اور فکرمند ہے۔ مگر یہ صورتحال پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ پوری دنیا میں اس وقت کہیں کم اور کہیں زیادہ ایسی ہی صورتحال ہے۔امریکہ جو ایک معاشی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے شرح سود میں اضافے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس کے دو بڑے بنک دیوالیہ ہوگئے ہیں۔ سیاحوں کی جنت سوئٹزر لینڈ کے کریڈٹ سوئس بنک کی فروخت کی نوبت آگئی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے اس صورت حال کے پیش نظر خبردار کیا ہے کہ بنکنگ سیکٹر میں حالیہ اتھل پتھل کے باعث عالمی مالیاتی استحکام کو خطرات بڑھ گئے ہیں جنہیں روکنے کے لئے دنیا کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ بیجنگ میں گزشتہ روز چین ڈویلپمنٹ فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 2023 کو ایک اور مشکل سال کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ، مالیاتی سختیوں اور وبائی امراض کے خوف کی وجہ سے عالمی شرح نمو 3 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت غیرمعمولی طور پر بڑھی ہے جس سے معاشی عدم استحکام کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔ عالمی معیشت کے کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔ قرضوں کی بلند سطح کے دوران شرح سود میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے مالیاتی دباؤ اور کمزوریاں پیدا ہورہی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے بینکنگ کے شعبے میں بھی ہونے والی پیش رفت اس کی غماز ہے۔ پالیسی ساز اداروں نے مالی استحکام کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں جن سے کسی حد تک مارکیٹ کے تناؤ میں کمی آئی ہے لیکن بے یقینی کی صورتحال اب بھی برقرار ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ہوشیار اور چوکس رہا جائے اور شرح سود میں تیزی سے اضافے کے باعث بڑھنے والی مہنگائی کے خلاف جنگ پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ انہوں نے چین کی معاشی بحالی کو عالمی معیشت کے لئے خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ اس کے باعث کاروبار معمول کی طرف آرہے ہیں۔ انہوں نے نجی اور سرکاری اداروں کے درمیان مقابلہ کے لئے مارکیٹ اصلاحات کے ساتھ ساتھ تعلیم میں سرمایہ کاری پر زور دیا اور کہا کہ اس سے معیشت کی پیدواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ عالمی ادارے کی سربراہ کے خدشات اور توقعات کے حوالے سے پاکستان کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری معیشت بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ساڑھے چار سال پہلے پاکستان کی شرح نمو 6 فیصد سے زیادہ تھی جو اب 2 فیصد تک آگئی ہے اورتنزلی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ روپے کی قدر مسلسل گرتی جارہی ہے۔ سیلاب اور بارشوں کی وجہ سے غلے کی پیدوار میں کمی ہوئی ہے اور سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں زندگی کا سار کاروبار ٹھپ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے جس سے عام آدمی کا جنیا دو بھر ہوگیا ہے۔ حکومت معاشی بقا کی جنگ لڑرہی ہے اور ضرورت مند طبقے کی تالیف قلب کے لئے بہت کچھ کررہی ہے مگر خزانہ خالی ہونے کے سبب اسے بھرنے کے لئے ٹیکسوں اور یوٹیلٹی بلز میں اضافے کے اقدامات مالیاتی تناؤ میں اضافے کا باعث ہیں۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط 6.5 بلین ڈالر کے قرضے کی باقی قسط کے حصول میں بری طرح حائل ہیں اور طویل مذاکرات کے باوجود یہ معاملہ ابھی تک حل نہیں ہوسکا جس کی وجہ سے دوست ممالک سے قرضوں کا حصول بھی مشکلات کا شکار ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ اس وقت دوسرے معاملات سے صرف نظر کرتے ہوئے ملک کی مالی مشکلات پر قابو پانے کے لئے مشاورت سے نتیجہ خیز تدابیر اختیار کی جائیں مگر سیاسی تناؤ، ضد اور انا اس سمت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر عقل سلیم سے کام نہ لیا گیا تو عالمی اقتصادی عدم استحکام بھی پاکستان کی معاشی بحالی پر منفی اثرات مرتب کرے گا اور ہماری معیشت دیوالیہ پن کا شکار ہوسکتی ہے۔