ریاست اور سیاست

March 28, 2023

عمران خان کی طرح قوم کو بھی ان کی سیاست کی سمجھ نہیں آتی۔ عمران خان نے نہ صرف سیاست بلکہ ملکی معاملات کو بھی الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک شدید عدم استحکام اور عوام پریشانی سے دوچار ہیں۔ دراصل ان کی سیاست کے دو محور ہیں۔ پہلا اور بنیادی محور کسی بھی قیمت پر حصول اقتدار ہے۔ دوسرا یہ کہ اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی مخالفین کو ذلیل و خوار کرنا ۔ ان کی سیاست کے یہ دونوں محور قوم پہلے بھی دیکھ چکی ہے لیکن جو اب تک یہ دو نکتے نہیں سمجھ پارہے ان کا کیا کیا جائے۔ عمران خان کو اس بات کی قطعی کوئی پروا نہیں کہ ان کی کسی بات یا اقدام سے ریاست کو کیا اور کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ موجودہ حکومت کو ناکام بناکر خود اقتدار کی کرسی پر بیٹھنا ہی ان کا اولین مقصد ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کیلئے ریاست کو کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ قوم کو اس کی کتنی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ان باتوں سے وہ قطعی لاتعلق اور بے پروا ہیں۔ خاص کر اس وقت سے جب سے کسی ’’ہمدرد‘‘ نے ان کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ ملک کے سب سے مقبول لیڈر ہیں۔

امریکی سازش اور وہاں سے بھیجے گئے سائفر کی کہانی ایک من گھڑت افسانہ ثابت ہوئی جس کا خود انہوں نے قوم کے سامنے بلاجھجک اعتراف کیا۔اس الزام سےپاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیداہوئی۔ سعودی شہزادے نے سعودی حکومت کی طرف سے ایک انمول گھڑی بڑے پیار کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کو دی۔ انہوں نے اس نایاب تحفے کے ساتھ جو کچھ کیا اور ان کی اس حرکت سے پاکستان کی جو بدنامی ہوئی وہ پوری قوم جانتی ہے،اس ’’واردات‘‘ کی وجہ سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات بہت متاثر ہوئے۔ اس کا خمیازہ اب تک قوم بھگت رہی ہے۔ امریکی سازش اور سائفر ہی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا نام دیا۔ لیکن اپنی ہی کہی گئی اتنی بڑی بات سے کچھ ہی عرصہ بعد منکر ہوگئے اس لئے اب موجودہ حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہنا بند کردیا ہے۔ اس یوٹرن کے بعد سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر الزامات کا جو سلسلہ شروع کیا گیا وہ تاحال جاری ہے اپنی حکومت گرانے کی ذمہ داری امریکہ کے بعد جنرل (ر) باجوہ ، نگران وزیراعلیٰ پنجاب، حسین حقانی اور پتہ نہیں کس کس پر ڈالی گئی، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

اہم ترین اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف مذموم پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ ان اداروں اور شخصیات پر کبھی اپنی حکومت گرانے اور کبھی خود پر قاتلانہ حملہ کرانے کے بعد یہ الزام بھی لگایا ہے کہ مجھے فلاں ادارے کے فلاں اعلیٰ افسر اور فلاں فلاں سیاسی رہنمائوں سے جان کا خطرہ ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد اس نام نہاد اور من گھڑت الزام میں مزید نام بھی شامل کردیئے جائیں گے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی شرمناک مہم کے علاوہ بیرونی ممالک میں اپنے حواریوں کے ذریعے گستاخانہ نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ حکومت کے خاتمے کے بعد ایک جلسہ سے خطاب میں عدلیہ اور جج صاحبان کو بکائو مال کہا گیا تھا۔ وہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اپنے سابق وزیر خزانہ سے دو صوبائی وزرائے خزانہ کو فون کرواکے آئی ایم ایف سے توڑے گئے معاہدے کے بعد آئی ایم ایف کو خطوط ارسال کروانے کا مقصد ملک و قوم کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ کرنا تھا۔

وہ یقیناً یہ سب جانتے اور سمجھتے ہیں کہ عسکری قیادت، اداروں کو کمزور کرنے اور معاشی بدحالی سے ریاست اور قوم کمزور ہوتی ہے۔ ملک میں فساد اور انارکی پھیلانے سے معاشی مشکلات میں مزید اضافہ اور بے یقینی کی صورتحال ریاست کی بنیادیں کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ کسی ایک صوبے کی پولیس کو وفاقی یا دوسرے صوبے کی پولیس کے مقابلے پر لاکھڑا کرنے کا مطلب کیا ہے۔ عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے کا مقصد کیا ہے؟ ۔ سب کو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ریاست سب پر مقدم ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں اہم ترین اداروں اور ان کی قیادت کے خلاف کسی منفی بات اور پروپیگنڈے کی قطعاً اجازت نہیں ۔نہ ہی ایسے بیانات اور اقدامات کی اجازت ہے جس سے ریاست کو سیاست کی نذر کیا جائے۔ ایسی کوششیں کرنے والوں کو سیاستدان نہیں بلکہ کچھ اور نام دیا جاتا ہے اور پھر ملکی قانون اور ادارے حرکت میں آتے ہیں۔

اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی اندرونی طور پر شدید اختلاف کا شکار ہے۔ پارٹی کے کئی رہنما جاری پالیسی اور منفی رجحانات سے اب نہ صرف اکتا گئے ہیں بلکہ ان بیانات اور اقدامات کی وجہ سے ریاست کو نقصان پہنچنے پر نالاں ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ناکام جلسہ اس کا اظہار اور ثبوت ہے۔ اس ’’عظیم الشان‘‘ جلسے میں چند ہزار لوگوں کی شرکت کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کے بلند بانگ دعوئوںاور ہدایات کے باوجود مقامی رہنمائوں نے اس جلسہ میں کسی دلچسپی کا اظہار نہیں کیا۔

ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی میں ایک بلاک بننے کا امکان ہے جو نظریاتی بنیادوں پر سامنے آسکتا ہے۔ لاہور جلسے میں عمران خان کی تقریر کے دوران ہی بعض رہنمائوں کا جلسہ اور ان کی تقریر کو چھوڑ کر جانا بھی اسی سلسلے کی کڑی اور ابتدا ہوسکتی ہے ۔ان پارٹی رہنمائوں کی طرف سے اس جلسہ میں شرکت بھی شاید اسی سلسلے میں تھی اور عمران خان کی تقریر کا بائیکاٹ کرنا بھی اس کا اظہار اور پہلا قدم ہوسکتا ہے۔ ابھی آگے اور مرحلے بھی ہیں۔ بس تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔