ایٹمی ملک اور غربت

March 29, 2023

ایک زمانہ تھا کہ پی ٹی وی کے ڈرامے اتنے مقبول تھے کہ جب ان ڈراموں کے نشر ہونے کےوقت ہوتا تو سڑکوں ،گلیوں میں سناٹا چھاجاتا۔ یہ پی ٹی وی کا دور تھا اور آج کل کی طرح بعض پرائیویٹ چینلز شتربے مہار نہیں ہوتے تھے۔اس دور میںفلموں کی بھی یہی صورت حال تھی،ان سے لاکھوں لوگوں کو روزی روٹی میسر تھی پھرآمر آگیا ،ضیاالحق کے دور میں دریا دجلہ کے کنارے کتے کو روٹی اور پانی کیا ملتا،اس کے بر عکس پاکستان سے رفتہ رفتہ روٹی ہی غائب ہونے لگی جسے ہر فوجی آمرکے آنے کے بعد پر لگ گئے،اب صورتحال آپ کے سامنے ہے اور بلا تبصرہ ہے،ہم ڈراموں کی مقبولیت کی بات کررہے تھے البتہ روزی روٹی تو نایاب ہے لیکن ڈرامے کامیاب ہیں ،ان دنوں موبائل فون کی گھنٹی بجتے ہی آپ کو یاد دلایا جاتاہے کہ پاکستان میںلوگوں کو روٹی مل رہی ہو یا ناپید ہو لیکن آپ کے کندھوں پر ترکی اور ملائشیاکے لوگوں کا بار اُٹھانے کی بھی ذمہ داری ہے!!حالانکہ دنیا میں بھوک کی صورتحال کے بارے میں ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی تازہ ترین رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس کے مطابق 117 ممالک کی فہرست میں پاکستان گزشتہ سال کے مقابلے میں 12 درجہ ’’بہتری‘‘ حاصل کر کے 94ویں نمبر پر آگیا ہے ۔جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک میں سری لنکا 66ویں، نیپال 73ویں،بنگلہ دیش 88ویں، اور افغانستان 108ویں نمبر پر ہے!!گلوبل انڈیکس میں نیچے ہونے کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آبادی کو ضروری خوراک نہیں مل رہی، بچوں کی اموات کی شرح زیادہ ہے، بچوں کا وزن کم ہے اور وہ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔بھوک کا شکار ملکوں میں پاکستان گیارہویں نمبر پر ہے اور انڈیا ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے،دوبارہ پڑھ لیں ازلی دشمن تیسری بڑی معیشت ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جنوبی ایشیائی ممالک اور افریقہ میں صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع ممالک ہنگر انڈیکس میں سب سے پیچھے ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث بچوںکی نشوونما میں کمی کا تناسب سب سے زیادہ جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے ۔ ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ کی 2019کی فہرست میں لیٹویا، بیلاروس، ایسٹونیا، کویت اور ترکی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک کی صورتحال سب سے اچھی ہے۔اسلام کے مقدس نام پر بننے کے دعویداراس اسلامی جمہوریہ میں امارت وغربت میں عرش وفرش سے بھی بڑھ کر فرق وامتیاز نے درحقیقت یہاں شاعرِمشرق کے تصورکے قطعی برعکس دو پاکستان کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ قیام ِپاکستان سے قبل جو جو نعرے تھے اُسے آپ یہاں اُلٹ دیکھ سکتے ہیں ،نام تو اسلام کاہے یا پھر بڑے تفاخر سے اسے اسلام کاقلعہ کہاجاتاہے لیکن عملی اعتبارسے اس ’’قلعے‘‘ میں صرف طاقتور ہی محفوظ ومامون ہیں ،وہ بلاروک ٹوک غریبوں کا خون نچوڑ کرہر روز نئی شان ونئی آن سے توانا اور مزید سیم وزرکے مالک ہورہے ہیں، جہاں زرداروں کے اس پاکستان میں ہر طرف عیش وعشرت ہے وہاں دوسری طرف غریبوں پر تنگ ہوتی اس سرزمین میں جو پاکستان سامنے ہے اُس کی تصویر ذیل کے اس لرزہ خیز واقعہ سے آسانی سے واضح ہوسکتی ہے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس اٹھارہ لوگوں کی فہرست موجود ہے جن کے اکاؤنٹ میں چار ہزار ارب موجود ہیں،ملک اس وقت پائی پائی کا محتاج ہے جس کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے بھی ہاتھ پھیلا دیئےگئے ہیں۔حکومت کو اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے اور حکومت کہتی ہے کہ پچاس لاکھ ڈالر روزانہ افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں، اس کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی، اس اسمگلنگ میں کون سی بڑی شخصیات ملوث ہیں ان کا سراغ لگایا جائے۔ ہمارے سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ ملک کی خاطر اپنی جائیداد وقف کریں ،اپنے خفیہ اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے اربوں روپے نکالیں۔وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ان کی کابینہ نے کفایت شعاری اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، کابینہ اور وزیراعظم کی اس کفایت شعاری مہم کا ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہو گا اور یہ کفایت شعاری مہم کہیں دو روٹیوں کی جگہ ایک کھانے والی نہ ہو اگر حقیقی معنوں میں حکومت چاہتی ہے کہ کفایت شعاری مہم اپنائے تو پھر وہ اٹھارہ اکاؤنٹس کا سراغ لگائے جس میں حکومتی خاندان کے بھی نام آ رہے ہیں۔اگر خدا نخواستہ ملک ڈیفالٹ کرتا ہے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گی وہیں حکمرانوں کیلئے بھی حالات خراب ہوں گے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو وسائل دیئے ہیں ان کا درست استعمال کیا جائے تب کہیں جا کر پاکستان اس معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی گیا تو وہ کوئی مستقل حل نہیں ہے،اصل حل بلا متیاز سب کا احتساب ہےلیکن جس کرپشن کی بنیاد پاکستان کےابتدائی دورمیںرکھی گئی تھی اُس کااحتساب کرےگاکون؟۔جب جب میں وطن عزیز میں انسانی استحصال کی نت نئی شکلیں دیکھتاہوں تو سوچتا رہ جا تاہوں کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ ہم بہتر مسلمان ہیں، سوال تو یہ ہے کہ کیاہم مسلمان بھی ہیں؟