پارلیمنٹ آئین کی ماں جبکہ!

March 30, 2023

23 مارچ کو شائع ہونے والے درویش کے کالم بعنوان ’’نوے روز میں انتخابات ہوتے نہیں دکھتے‘‘ پر احباب کی طرف سے تین سوالات موصول ہوئے ہیں۔ اول یہ کہ آپ ہمیشہ سے آئین اور جمہوریت پر ایمان کے دعویدار رہے ہیں، آئین کہتا ہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد 90روز میں لازماً نئے انتخابات ہونے چاہئیں آپ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کے غیر آئینی اقدام کی حمایت کیوں کئے جا رہے ہیں؟دوسرا سوال یہ کہ آپ اپنے کالموں میں ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ لے کر چلتے رہے ہیں آج اگر پی ٹی آئی چیئرمین اسی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کا سمبل بنا کھڑا ہے تو آپ بجائے اس کی حمایت میں قلم اٹھانے کے الٹا اس کی مخالفت کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے ، کیا یہ بالواسطہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت نہیں ہے؟ تیسرا سوال یہ کہ آپ اپنے کالموں میں اکثر امریکیوں کے دفاع میں کھڑے پائے جاتے ہیں آج اگر امریکی خان کی حمایت کر رہے ہیں باوجود اس امر کے کہ انہوں نے اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار امریکیوں کو قرار دیا تھا پھر آپ کیا سمجھتے ہیں امریکی ایسے کیوں کر رہے ہیں؟ اور کیا آپ زلمے خلیل زاد کے بیانات کی حمایت کریں گے؟

پہلی گزارش تو یہ ہے کہ جب متذکرہ بالا کالم تحریر کیاگیا تھا تب تک الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ زمینی حقائق ملاحظہ کرتے ہوئے اپنا اندازہ یا مشاہدہ پیش کیا تھا جسے ناچیز بلاجواز خیال نہیں کرتا ۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں جو دلائل پیش کئے ہیں کوئی بھی شخص اگر انہیں توجہ سے پڑھ لے تو وہ ان کی اصابت سے انکار نہیں کرسکے گا ۔بادیٔ النظر میں نوے روز کی بندش کا تقاضا وزن رکھتا ہے جس کی عمل داری سے آئین و جمہوریت پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص اصولاً انکار نہیں کرسکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر کی مالکہ یا ماں کے سامنے کسی چوکیدار یا محافظ کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟ چاہے اس نے وردی پہنی ہو یا گاؤن ، ہمارے یہاں غلط طور پر آئین کی ماں یعنی پارلیمنٹ کی حیثیت و توقیر کو کمتر بنا کر پیش کرنے کی افسوسناک اوربری عادتیں پڑی ہوئی ہیں اس میں منتخب عوامی نمائندوں کا بھی قصور ہے کہ وہ غیر منتخب لوگوں یا محکموں کے سامنے دبک کر بیٹھ جاتے ہیں ورنہ اگر اقتدار کا سرچشمہ عوام کو تسلیم کرلیا جاتا تو کس کی مجال تھی کہ وہ پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوال اٹھاتا۔ یہ پارلیمنٹ کی اتھارٹی ہے کہ وہ اپنے تخلیق کردہ محکموں یا اداروں کے ضوابط وضع کرے یا رہنما اصول تشکیل دے۔

علاوہ ازیں،کسی بھی غیر منتخب شخص یا محکمے کا جابرانہ اختیار قبول نہیں کیا جانا چاہئے، دیکھا جائے تو جس بالادست ادارے نے آئین کو جنم دے رکھا ہے اس کی تشریح کا حق بھی بنیادی طور پر اسی کا ہے ۔کسے معلوم نہیں کہ پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں بلیک میلنگ کے لئے توڑی گئیں، ان کے توڑے جانے کا کوئی جواز نہیں تھا ایسی کوئی مشاورت نہیں تھی ہر دو وزرائے اعلیٰ کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ وہ اس کیلئے قطعی طور پر آمادہ نہ تھے اگر جبری طلاق یا معاہدہ درست نہیں تو اتنا بڑا جبری اقدام کیسے درست تھا ؟ چلیں مان لیا جو ہوا درست ہوا یہ وزیر اعلیٰ کا آئینی حق تھا، لیکن ’کارِ جہاں دراز ہے اب میرا ذرا انتظار کر‘۔ کسی بھی چیز کی تشریح کرتے ہوئے زمینی حقائق کی تلخیوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ ملکی معیشت ڈبکیاں کھا رہی ہے قومی اسمبلی کی میعاد پوری ہونے کو ہے، ہم لوگ یہاں طرح طرح کے تماشے لگانا چاہ رہے ہیں، ویسے بھی ہماری پون صدی کی تاریخ میں قومی اور صوبائی انتخابات میں اس نوع کا فاصلہ کب روا رکھا گیا ہے؟ یہاں تو تین دن کے فرق کو بھی دھاندلی خیال کرتے ہوئے آئینی طور پر ایک دن کردیا گیا کہ مبادا جیتنے والا ناجائز فائدہ اٹھاسکے۔ لہٰذا اسی آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کئے جائیں گے دیکھا جائے تو یہ بھی آئینی تقاضا ہےاور پھر نئی مردم شماری بھی آئینی تقاضا ہے اس کی تکمیل بھی ہونی چاہئے بڑا اچھا موقع ملا ہے ، سبھی جائیں، عوامی رابطہ مہم چلائیں، عوامی دکھوں کو سمجھیں ان کی خدمت کریں اور اپنی جیت کیلئے جگہ بنائیں، اکتوبر کون سا دور کھڑاہے۔دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے جو سادہ لوح دوست اس نوع کی سوچ رکھتے ہیں کہ فلاں شخص بہت بڑا جمہوری لیڈر ، تیس مار خان، یا درویش کےالفاظ میں ’’جناح ثالث‘‘ بن گیا ہے اور وہ آئین و جمہوریت کے بھاشن دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل کھڑا ہوگیا ہے ، یہ ان لوگوں کی بھول ہے کہ اس شخص کا اسٹیبلشمنٹ سے جھگڑا اس بات پر ہے کہ آپ لوگ آئین، جمہوریت یا عوامی حاکمیت کے سامنے سرنگوں کیوں نہیں ہوتے، جھگڑا یاتنازع اس بات پر ہے کہ میری حمایت کیوں نہیں کرتے ، میرے سیاسی مخالفین چور ڈکیت ہیں۔

کوئی شریف انسان سوچے ایسی ذہنیت رکھنے والا شخص کیا اس قابل ہوسکتا ہے جس سے عوامی حاکمیت یا آئین و پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے کوئی توقع رکھی جا سکے؟ کیا کیا ’بیانیے‘ نہ بنائے اوراب لمبی رقوم خرچ کرتے ہوئے امریکی سفارت کاروں سے اپنی حمایت میں جو بیانات جاری کروائے جارہےہیں درحقیقت اس طریقے سے وہ اپنا یہ عوامی تاثر پھیلانا چاہتا ہے کہ امریکہ تو میری پشت پر کھڑا ہے آج اگر فلاں سالار مجھے بیساکھیاں فراہم نہیں کر رہا یا نیوٹرل ہو چکا ہے تو میرے پاکستانیو گھبرانا نہیں طاقتور امریکہ اقتدار دلوانے میں میری معاونت کرے گا کیونکہ ہمارے عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں اقتدار اللہ، امریکہ یا آرمی کے بغیر نہیں مل سکتا، لہٰذا یہ سب پروپیگنڈا عوام کو بیوقوف بنانے کے نفسیاتی حربے یاہتھکنڈے ہیں اور کچھ نہیں۔