‎دھندلا منظر

April 02, 2023

‎گزشتہ برس میاں بیوی اورچار بچوں پر مشتمل ایک دیہاتی کنبہ ہمارے گھر کے قریب کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہائش پذیر ہوا۔ خاوند ایک ٹیکسٹائل مل میں مزدوری کرتا تھا جب کہ اس کی بیوی ایک کوٹھی میں کام کرتی تھی جہاں مالکان نے انہیں ایک کمرے کا کوارٹر رہائش کیلئے دے رکھا تھا۔ اس خاندان کے چاروں بچے میلے کچیلے کپڑوں میں سارا دن گھر کے باہر گلی میں کھیلتے نظر آتے۔ بچوں کے باپ سے ایک دن کہا کہ وہ بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کیوں نہیں کرواتا.....؟ تو اس نے بے بسی سے جواب دیا ’’محدود آمدنی میں بچوں کو کھانا کھلاؤں یا تعلیم دلواؤں؟‘‘ چند روز بعد کچھ دوستوں کی مدد سے ان بچوں کو اسکول داخل کروا دیا اور وہ بچے نئے یونیفارم پہن کر اسکول جانے لگے۔ رمضان کے آغاز سے قبل اس خاندان کو کچھ مدد دینے کیلئے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ واپس گاؤں چلے گئے ہیں۔ بے یقینی کے عالم میں اس شخص کا نمبر لیکر اسے فون کیا تو اس نے بتایا ،ملک میں ابتر معاشی حالات اور آرڈر پورے نہ کرنے کی وجہ سے مل مالکان نے پروڈکشن یونٹ بند کردیا اور مجھ سمیت سینکڑوں مزدور بے روزگار ہوگئے ۔ بیوی سارا دن مالکان کے گھر کا کام کاج کرتی تھی جس کے عوض اسے قلیل تنخواہ اور مفت رہائش ملی ہوئی تھی جس سے ہمارا گزارا ناممکن تھا ،ناچار ہم واپس گاؤں اپنے کچے مکان میں آگئے ہیں، میں کھیتوں میں کام کرتا ہوں جس کے عوض سال بھر کا اناج اور سبزیاں مل جاتی ہیں، بڑے بچے مدرسے جا رہے ہیں۔ وہ روہانسی آواز میں بتا رہا تھا، دیہات میں مستقبل سے مایوس نئی نسل تیزی سے نشے کی لت میں مبتلا ہورہی ہے اور غریب کی عزت گھر کی چار دیواری میں بھی محفوظ نہیں ، میں نے بوجھل دل کے ساتھ فون بند کر دیا۔

‎چند روز قبل ایک صاحبِ ثروت دوست ملے تو کہنے لگے میں ہر سال رمضان المبارک سے قبل غربا اور مستحقین میں بڑی مقدار میں راشن تقسیم کرتا ہوں۔ اس مرتبہ ہمارے محلے کا ایک سفید پوش شخص مجھے ملااور راشن کی درخواست کی تو مجھے احساس ہوا کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کا بھی گزارا مشکل ہوگیا ہے ،چنانچہ میں نے مہینےبھر کا راشن خاموشی سے اس کے گھر بھجوا دیا۔ اس کی بات سن کر مجھے چند ماہ قبل کا واقعہ یاد آگیا ،جب ایک جاننے والے ریٹائرڈ اسکول ٹیچر پریشانی کی حالت میں آئے اور کہنے لگے پچھلے مہینے اچانک بجلی کا بہت زیادہ بل آگیا تو گھر کا کچھ سامان بیچ کر وہ بل ادا کیا اب اگلے مہینے پھر بہت زیادہ بل آگیا ہے ،جسے ادا کرنے کیلئے پوری رقم نہیں ہے، ان کی بات سن کر میں نے بقیہ رقم انھیں دی اور سوچنے لگا وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہم وطنوں کی تمام خوشیاں ہی چھین لیں ،ملک کو اندھیروں میں غرق کر دیا۔ زیادہ دنوں کی بات نہیں میں ایک دوست کے ہمراہ شہر کی مصروف سڑک سے گزررہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجنے لگی، میں نے گاڑی سڑک کے ایک جانب کھڑی کی اور فون سننے لگ گیا اچانک دو کم عمر نوجوان موٹر سائیکل پر آئے اور پستول دکھا کر ہم سے بٹوے اور فون دینے کا کہا۔ ہم دونوں دوستوں نے خاموشی سے اپنے بٹوے خالی کر دیئے۔ ایک منٹ سے بھی کم وقت میں ہونے والی اس واردات کے دوران میں ان کے چہرے دیکھتا رہا، ان کی آنکھوں میں بیک وقت خوف، غصہ اور مایوسی نظر آرہی تھی ،وہ اپنی آواز رعب دار بنانے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ان کے ہاتھوں کی لرزش سے لگ رہا تھا وہ اناڑی ہیں شاید سسٹم کی خرابی یا ناکامی نے انہیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا ہو۔ دونوں موٹر سائیکل آگے بڑھانے لگے تو سامنے پولیس کی گاڑی آرہی تھی۔ میرا دوست کہنے لگا ان کو اپنی گاڑی کی ٹکر سے گرادو پولیس انھیں پکڑ لے گی مگر میں خاموش بیٹھا سوچتا رہاکہ ان بچوں کو بھی ان کے ماں باپ نے نازوں سے پالا ہوگا، محنت مشقت سے انھیں پڑھایا ہوگا ان کے لئے بڑے بڑے خواب دیکھے ہوں گے اور پھرنجانے کیا وجوہات ہوں گی کہ وہ جرائم کی دلدل میں جا پھنسے ؟مجھے بھی معلوم ہے وہ دونوں انکاؤنٹر میں مارے جا چکے ہوں گے یا پھر جیل میں ہوں گے ،جہاں سے وہ عادی مجرم بن کر نکلیں گے اور کسی گینگ کا حصہ بن جائیں گے۔ ‎ایک دوسرے کو زیر کرنے کی خواہش اور جنون نے ہمارے سیاستدانوں کو عوام کے مسائل سے لاتعلق کردیا ہے۔ عوام کو اپنےپاؤں تلےہی رکھنے کی اشرافیہ کی ضد نے پورے نظام کو تلپٹ کردیا ہے۔ کیا ہمارے موجودہ اور سابق حکمرانوں کو آٹے کے حصول کے لئے طویل قطاروں میں لگے عوام نظر نہیں آتے؟ پبلک ٹرانسپورٹ میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے گئے لوگ نظر نہیں آتے؟دل خون کے آنسو روتا ہے جب مسافر خواتین و مرد اور بچے بچیاں چند روپے بچانے کی خاطر رکشہ ٹیکسی والے کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں، بڑی امپورٹڈ گاڑیوں میں سفر کرنے والوں کو باہر کا منظر شاید دھندلا نظر آتا ہے جہاں سڑک کنارے ہوٹلوں اور ٹھیلوں پر ملازم پیشہ افراد اور طالب علم کھانے والی روٹیوں کی تعداد کم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور خیراتی لنگروں پر لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

‎(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)