مذاکرات کس سے؟

May 30, 2023

مذاکرات تنازعات کو حل کرنے اور اتفاق رائے تک پہنچنے کا بہترین ذریعہ اور طریقہ ہے۔ ملکوں کے درمیان بھی جنگوں کے بعد تنازعات کا حل مذاکرات کی میز پرہی کیا جاتا ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس کیساتھ مذاکرات ہوسکتے ہیں یا کرنے چاہئیں اور کس کیساتھ مذاکرات بجائے تنازعات کے حل کرنے کے معاملات کو مزید پیچیدہ یا خرابی کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ جس معاملے پر مذاکرات ہونے ہوتے ہیں اس کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے نیز یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ مذاکرات کسی ایک فریق کی ضرورت اور کسی مفاد کی خاطر تو نہیں ہورہے۔ دویا زیادہ فریقوں کے درمیان مذاکرات کسی تنازعہ کے حل کے لئے ہوتے ہیں جہاں فریقین کے درمیان کوئی تنازعہ ہی نہ ہو اور ایک فریق صرف اپنے مفاد کے لئے اور اپنی بات منوانے کے لئے یا کسی مجبوری کی بنا پر مذاکرات کرنا چاہتا ہوتو ایسی صورت میں نہ تو کبھی مذاکرات ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دوسرا فریق اس کے لئے تیار ہوسکتا اسی لئے اس بنیاد پر ہونے والے مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں۔

آج کل مذاکرات کی بحث پھر شروع کردی گئی ہے۔ اور ایک شخص کی خواہش اور ضرورت کی بنیاد پر جو کہ آسان الفاظ میں این آر او لینے کی کوشش ہے۔ یہ وہی تو ہے کہ جب دوسرے فریق نے قومی اسمبلی کے فلور پر ملکی معیشت کی بہتری کے لئے مذاکرات کی پیش کش کی تھی تو جواب میں کہا گیا تھا کہ یہ لوگ اس آڑ میں این آر او مانگ رہے ہیں یا لینا چاہتے ہیں۔ اور یوں اس وقت کی اپوزیشن کی ملک کی بہتری کیلئے وہ کوشش رد کردی گئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب بھی اس وقت کی اپوزیشن نے مذاکرات کی بات کی تو نہ صرف انکار کیا گیا بلکہ مذاق اڑایا گیا۔ اس کو این آر او لینے کی کوشش قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ بھی کبھی کسی نے مذاکرات کئے ہیں یہ الفاظ اور بیانات عمران خان کے ہی ہیں جواس وقت برسر اقتدار ہوتے ہوئے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اور سیاسی مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنا روزمرہ کا معمول اور اپنا فرض سمجھتے تھے۔ لیکن مکافات عمل دیکھئے کہ اب وہی صاحب ان ہی لوگوں سے مذاکرات کے لئے ہلکان ہورہے ہیں اور از خودہی کمیٹی بھی بنادی۔یہ وہی تو ہے جب عسکری قیادت نے غیر جانبدار رہنے کی بات کی توان کو توہین آمیز القابات سے پکارنے لگا۔ آج وہی عمران خان عسکری قیادت سےملاقات کے لئے سوجتن کرچکے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اب کیوں عمران خان عسکری قیادت سے ملاقات کے لئے بے چین ہیں۔

عمران خان نہ جانے کیوں اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہی کچھ ہو جو وہ چاہتے ہیں۔ جناب اب بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ مذاکرات کی گاڑی تو چھوٹ چکی ہے اب تو حساب کا وقت ہے اب ان کی نہیں ریاست اور قوم کی بات چلے گی۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ9مئی کے واقعات عام سی بات تھی اور رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا ہے۔ وہ کبھی یہ بھی کہتے ہیں کہ9مئی کے واقعات ان کی گرفتاری کا ردعمل تھا۔ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ آنیوالے دنوں میں سرپرائز دیں گے۔ اس بات کے دوپہلو ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب9مئی طرز کی واردات تو وہ نہیں کراسکتے شاید وہ کوئی نیا ڈرامہ ترتیب دینے کی کوشش کررہے ہیں یا پھر یہ اسی طرح ٹوپی ڈرامہ ہے جب اقتدار سے الگ ہونے کے بعد جلسوں میں لوگوں کو اکھٹا کرنے کے لئے کیا کرتے تھے۔ اور سادہ لوح لوگ یہ سوچ کران جلسوں میں جایا کرتے تھے کہ آج وہ کونسا نیا سانپ دکھائیں گے۔ یہ بات نہایت قابل غور ہے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد عمران خان عسکری قیادت،ریاستی اداروں اور ملک کو تباہ کرنے کی کوششیں کیوں کررہے ہیں۔ شہدا ئے لسبیلہ کا تعلق بھی تو اہم ترین دفاعی ادارے سے تھا ان کی توہین،وزیر آباد واقعہ میں عظیم ادارے کے ایک ایسے اعلیٰ افسر جن کی اس ملک کے لئے بے بہا خدمات ہیں کو ملوث کرنے کی کوشش اور پھر9مئی کو فوجی تنصیبات پرحملوں، فوجی املاک کو لوٹنے اور جلانے کے واقعات کی پلاننگ اور بالخصوص شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کرنے کے واقعات حادثاتی طور پرنہیں ہوئے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ منظم منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے۔ اور بات درست بھی اسلئے ہے اور قابل تشویش بھی ہے کہ یہ سب کچھ اعلیٰ عسکری قیادت، فوج کے شہدا اور فوجی املاک کیخلاف کیوں؟یہ کن لوگوں کا ایجنڈا تھا ؟ریاستی اداروں کو ان نکات پرفوری توجہ دینی چاہئے۔

جہاں تک مذاکرات کا تعلق ہے تو کوئی بتائے کہ کیا ایسے فریق سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ ایسے لوگوں سے کس تنازعہ پر بات چیت ہوگی۔ کیا ان ہی نکات پرکہ ان کو این آر او مل جائے۔ ان کی جان بخشی ہوجائے اور ان کی خواہش یکطرفہ کی تکمیل کے لئے انتخابات کا اعلان ہوجائے۔ اب بھی وہ ڈھٹائی سے انتخابات کی تاریخ کس طرح مانگ رہے ہیں۔9مئی کے واقعات دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش ہی نہیں کھلی دہشت گردی تھی۔ اداروں کو معلوم ہے کہ ان واقعات کی کہاں منصوبہ بندی کی گئی اور ان دہشت گردوں کو کس کس نے اکسایا۔ انتشار پسندوں کے ساتھ مذاکرات سے انکار اور ملوث افراد کو عبرتناک سزائیں دینے سے معاشرے انصاف کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہیں۔ عدالتوں کو بھی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی سزا کا فیصلہ جلد کرنا چاہئے۔ ورنہ قانون وانصاف پرلوگوں کا یقین نہیں رہے گا جو نہایت خطرناک رحجان ہو سکتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ عدلیہ انصاف کے ترازو کو برابر رکھے گی۔اداروں کو بھی مزید تحمل کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ریاست مخالف عناصر کی جلدبیخ کنی کرنی ضروری ہے۔یہی قوم کی تمنا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)