جبر یا پی ٹی آئی کا نظریاتی ضعف؟

May 31, 2023

اصل تعجب طاقت اور حُسن میں نہیں ،اُس استعداد میں ہے جو انسان کو کائنات کے تمام چرند پرند اور حیوانات میں ممتازو اہم اور منفرد مقام و مرتبہ کا حامل بناتی ہے۔ اس استعداد کا نام’ فکر‘ ہے، جو دیگر مخلوقات میں ناپید ومفقود مگر انسان اس کا ناتمام گنجینہ رکھتا ہے۔ اسی فکر کی بنیاد پر انسان بڑی قوت والا بن جاتا ہے۔ گویا انسان کی سب سے برتر قوت اس کی فکر ہے،اس بڑی قوت یعنی فکر ہی کی بنیاد پر ایک نظریہ تخلیق پاتاہے، ان سطور میں ہم اس بڑی قوت پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنمائوں کی نظریاتی کمزوری کو سامنے لانے کی کوشش کرینگے۔ اس سلسلے میں مذہبی راہب اگوستین کے اُس مشاہدے، جو انہوں نے 354عیسوی تا 420عیسوی کیا تھا، جسے جناب محمد یوسف کاکڑ بے مثل ترجمہ کے ذریعے سامنے لائے ہیں، مفکر ہوبل نے انتھرالوجی یعنی ’’انسان آگاہی‘‘ میں اس پر کیا بات کی ہے، اسے یہاں رقم کرنے سے قبل آئیے 28مئی کی ایک خبر پر نظر ڈالتے ہیں۔ پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی اور سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بعد سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی پی ٹی آئی چھوڑنےکا اعلان کر دیا۔ کلیدی رہنمائوں کے استعفوں کے اعلانات آپ گزشتہ ہفتوں سے ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ ہم مختلف واقعات کے تناظر میں یہ بات رکھیں گے کہ آیا ایسا کسی جبر کا نتیجہ ہے یا جیسا کہ یہ احقر متعدد بار لکھ چکا ہے کہ ’’پی 'ٹی آئی نظریاتی جماعت نہیں ہجوم ہے، جو سخت وقت آتے ہی بلوں میں جا گھستا نظر آئے گا‘‘۔ مذہبی راہب اپنے مشاہدے میں کہتے ہیں کہ انسان آسمان کے کناروں، بہتے دریائوں اور بے سکوت وبے سکون سمندروں کو تو حیرت و استعجاب سے دیکھ رہا ہے، مگر ان سب سے زیادہ وہ خود لائق توجہ وتعجب مخلوق ہے۔ اس انسان کی حیرانی فقط اس کے اُٹھنے بیٹھنے نشست وبرخاست میں نہیں اور نہ ہی اس کی قوتِ بازو، حُسن وجمال اور جلال میں مضمر و پو شیدہ ہے، کیونکہ یہ خواص یعنی حُسن و قوت پرند چرند اور حیوانات انسان سے زیادہ رکھتے ہیں۔ یہ انسان سے بھی زیادہ زور آور ہونے کے ساتھ حسین وجمیل بھی ہیں۔ مگر اصل قوت یہ خواص نہیں، وہ قوت ہے جو دیگر مخلوقات میں مفقود اور انسان اس سے مالا مال ہےاور وہ ہےفکر جس نےانسان کو تمام مخلوقات میں ارفع مقام پر فائز کر رکھا ہے، اسی کی بنیاد پر اس انسانی زندگی وعمل کی بنیاد استوار ہوتی ہے۔ اب انسان کو ممتاز بنانے والے فکر ہی کی اساس پر آپ پی ٹی آئی رہنمائوں کی فکرکا جائرہ لیں کہ معاملہ جبر کا ہے یا نظریات کی کمزوری بلکہ نایابی کا ہے۔ کیا اس سے بھی زیادہ جبر کی داستانیں دیگر جماعتوں کی تاریخ میں محفوظ نہیں، اور شاذ و نادر ہی ایسی مثالیں ہونگی کہ ان جماعتوں کے رہنما نو دو گیارہ ہو گئے ہوں؟ حقیقت یہ ہےکہ کیا سیاستدان، صحافی، مزدور، طلبہ شاعر مقابلےکیلئے باہم مل جاتے، فیض صاحب پکار اُٹھتے، ’’ہم نے اُن پر کیا حرف ِ حق سنگ زن .... جن کی ہیبت سے دنیا لرزتی رہی‘‘۔ جب مولانا مودودی کو سزائے موت سنائی گئی تو جماعت کے کتنے راہ نما مستعفی ہوئے تھے کوئی مثال ہے؟ جدوجہد آزادی کے دوران اور قیام پاکستان کے بعد 37سال قید کاٹنے والے باچا خان پر جب جبر جاری تھا، کوئی ایک بھی مثال ہے کہ کوئی ایک بھی توبہ تائب ہو گیا ہو۔ کل ہی کا قصہ ہے کہ جب بشیر بلور اور ہارون بلور کو شہید کیا گیا تو نہ صرف حاجی غلام احمد بلور استقامت کا پہاڑ ثابت ہوئے، بلکہ ہارون بلور کی بیوہ ثمر بلور نےعَلم تھام لیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے ڈکٹیٹر نے کہا کہ پاکستان نہ آئو، لیکن وہ آئیں اور شہید ہو گئیں، ایسے عالم میں کتنے رہنمائوں نے پتلی گلی کا راستہ اختیار کیا! ایسا جبر صرف آمروں کے دور میں نہیں ہوا سول ڈکٹیٹروں کے دور بھی اس سے بھرے پڑے ہیں، لیکن حزب اختلاف ٹس سے مس نہ ہو ئی، بھٹو صاحب کے دور میں جب لیاقت آباد میں جلسہ گاہ کے اسٹیج پر بیٹھے حزب اختلاف کے رہنمائوں پر فائرنگ کر دی گئی اور اسٹیج پر سات کارکن شہید ہو گئے، قائد حزب اختلاف خان عبدالولی خان جب کھڑے ہو گئے تو چوہدری ظہور الٰہی نےکہا کہ خان صاحب کھڑے نہ ہوں، گولیوں کا رخ اسٹیج کی طرف ہے، تو ولی خان نے جواب دیا اگر آج میں چلا گیا یا بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا؟ تاریخی کتاب ’’سورج پر کمند‘‘ کے مطابق ایم آرڈی کی تحریک کے دوران صرف ایک فسطائی واقعہ میں مارچ 1984میں 724افراد جاں بحق ہوئے۔ لیکن کسی رہنما نے راہ فرار اختیار نہیں کی، یہ اسی نظریاتی فکر کا کمال تھا جس نے انسان کو تمام مخلوقات میں باکمال بنا رکھا ہے اور پی ٹی آئی کے ہاں جس کا نام و نشان نہیں ملتا۔