تشدد بہرصورت نا قابل قبول ہے

June 01, 2023

جمہوریت محض الیکشن کروانے اور جیسی تیسی اسمبلیاں بنوانے کا نام نہیں ۔ یہ ایک فلسفہ یا طرز فکر ہے برداشت روا داری اور وسعت نظری کا ، اپنے علاوہ دوسروں کو عزت و وقار اورا سپیس دینے کا، کسی بھی سماج میں اگر آزادی اظہار پر قدغنیں ہوں یا جبر کا دور دورہ ہو تو جمہوریت کاسوال ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔ ملک میں آج بہت سے لوگ حالات حاضرہ سے پریشان ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ ایک سیاسی پریشر گروپ یا اس کی قیادت نے اگر کوئی غلطی کی بھی ہے تو اس کایوں تیاپانچا کیوں کیا جا رہا ہے؟ درویش اپنے ان پریشان بھائی بہنوں کی خدمت میں عرض گزار ہے کہ آپ لوگ قطعی پریشان نہ ہوں مکمل اطمینان رکھیں کوئی جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے، جلاؤ گھراؤ توڑ پھوڑ یا تشدد کی اجازت کوئی بھی مہذب سماج نہیں دے سکتا چہ جائیکہ کسی جمہوریت میں اس کا تصور کیا جا سکے ۔ اصل بات یہ ہے کہ وائیلینس اور ڈیموکریسی دو متضاد اپروچز ہیں۔یہاں وقفوں کے ساتھ اگر عوامی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی ہوتی ہے تو وہ بعض حدود و شرائط کے تحت شراکت ہوتی ہے اور اگر وہ یہ محسوس کریں کہ شراکت والا اپنے آپ کو سچ مچ کا قائد عوام یا وزیر اعظم سمجھ بیٹھا ہے تو باگیں کھینچ لی جاتی ہیں۔ یہاں جتنے بھی عوامی لیڈر بنے ہیں بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے تراشیدہ بت تھے وہ بڑی حد تک اپنی حدود کو پہچانتے تھے اس سلسلے میں محترمہ اور نواز شریف کی دو بہترین مثالیں ہیں، جنہوں نے طاقتوروں کی قدغنوں کو بھی پیش نظر رکھا مگر ساتھ ساتھ بڑی حکمت سے عوامی اتھارٹی کو منوانے کے لئے کاوشوں میں بھی کبھی کمی نہ آنے دی۔ شروع میں ان دونوں سے اچھی خاصی حماقتیں سرزد ہوئیں لیکن وقت کے ساتھ میچورٹی اتنی آتی چلی گئی کہ جس کی مثال ہماری حالیہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ ’’میثاق جمہوریت‘‘ جیسی دستاویز اسی سیاسی میچورٹی کا ثمر ہے جسے سیاسی حلقوں میں آئین جیسا تقدس ملنا چاہئے۔ اسی سیاسی بالغ نظری کے ساتھ ہماری جمہوریت بعض غلطیوں کے باوجود اچھی خاصی آگے بڑھ رہی تھی اچھی جمہوریتوں کی طرح یہاں ٹوپارٹی سسٹم مستحکم ہو رہا تھا کہ اچانک ایک طاقتور کے دماغ میں ذاتی یا شخصی مفاد کا کیڑا پیدا ہوگیا۔ یہ مفاداتی تخیل یا کیڑا کوئی پہلی مرتبہ تھوڑا نمو دار ہوا تھا، جاہ پسند ذہنیت کو جب بھی ماحول یا موسم بہتر محسوس ہو یہ نمودار ہو جاتا ہے۔ اس کا جرثومہ تو 2013ء اور 14ءسے ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا اس کے لئے ایک کھلاڑی سامنے ایستادہ تھا۔

آج خواہ مخواہ کی بے وجہ بحث چھیڑی جاتی ہے کہ 9 مئی کے بدترین تشدد کا ذمہ دار یا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ تجاہل عارفانہ ہو تو الگ بات ہےورنہ دہشت و تشدد کے سہولت کار اندھیرے میں ہیں نہ ماسٹر مائنڈ کسی غار میں چھپا بیٹھا ہے۔ اب فیصلہ کرنا ہے کہ اپنی اس قدر تذلیل کروا کر بھی لاڈیاں دیکھنی ہیں یا ملٹری کورٹس میں پیشی کا اہتمام کرنا ہے اور بڑی سویلین کورٹ کو کب اس کے عاشق سہولت کاروں سے مکتی دلانی ہے؟شخصی مفاد کیلئے آئین و قانون کا کھلواڑیہ سب کتابی باتیں ہیں اس حوالےسے جو اودھم سپریم جوڈیشری میں براجمان اٹھائے ہوئے ہیں اگر وہ ہضم ہو سکتا ہے تو طاقتوروں کا معدہ ان سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ البتہ جو حاضر امام سے ٹکرائے گا وہ ضرور کچلا جائے گا۔ موقع کی مناسبت سے جناح ثالث کی خدمت میں مصور مملکت کے عطا کردہ نظریہ امامت کی ایک جھلک قابل ملاحظہ ہے۔’’تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے... حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے...ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق ...جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے...موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست... زندگی تیرے لئے اور بھی دشوار کرے۔‘‘لہٰذا اس دشواری سے بچنے کا مجرب نسخہ یہی ہے کہ جیسے تیسے مل ملا کر شاہی مہربانوں کو بیچ میں ڈال کر اپنے بال بچوں کے پاس پہنچ جانے کی ڈیل فرمالیں اور بزرگی کی اگلی زندگی سکون سے گزاریں۔ قوم سے ایمانداری کے نام پر لیا گیا اچھا خاصا مال اسباب اور وصول کردہ تحفے تحائف کم از کم بقیہ زندگی میں اختتام پذیر نہ ہوں گے۔ اسکےبرعکس اگر لیڈری کا جرثومہ کسی کروٹ چین نہیں لینے دیتا تو پھر عزیمت کی راہ اختیار کرتے ہوئے وہی حوصلہ دکھائیں جس کی توقع آپ اپنے سیاسی مخالفین سے کیا کرتے تھے۔ مت بھولیں کہ حکمرانی یا حصولِ اقتدار کی ہوس و حسرت اگر سینے میں تڑپنے لگے تو پھر لوگ ملٹری کورٹس کیا جیلوں کی اذیتیں برداشت کرتے ہوئے سولی پر چڑھ جاتے ہیں اور ہمیشہ کیلئے قائدِ عوام یا شہیدِ ملت کہلاتے ہیں۔